کسی بھی ملک، ریاست یا علاقے میں تجارت کو فروغ دینے کے لئے امن کا ہونا بے حد لازمی ہے ۔وادی کشمیر جو ایک زمانے میں امن ،سلامتی اور بھائی چارے کا گہوارہ سمجھی جاتی تھی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے اس جنت میں امن و سلامتی کا جنازہ نکل گیا، اس طرح یہاں کے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ تاجر برادری سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ہڑتال ،کرفیو اور تشدد کی لہر یہاں روز کا معمول بن چکی تھی ،لہٰذا تاجر برادری اور تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔جہاں تک بڑے تاجروں کا تعلق ہے، وقت وقت پر سرکار نے انہیں ریاعت دی لیکن چھوٹے دکانداروں کو یا تو اپنی تجارت بند کرنی پڑی یا پھر وہ قرض کے بوجھ تلے دب گئے۔اب جبکہ گزشتہ چند برسوں سے وادی میں امن وا مان کا سورج طلوع ہوا اور پتھراﺅ ،ہڑتال اور کرفیو سے لوگوں کو نجات مل گئی، کسی حد تک ان چھوٹے تاجروں کو راحت ملنے لگی۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان برسوں کے دوران وادی میں ریکارڈ توڑ سیاحوں کی آمد ہوئی ، جس سے یہاں متاثرہ چھوٹے تاجروں کو بھی فائدہ مل گیا جن میں ٹیکسی والے سے لیکر شکارہ والا اور گھوڑا بان سے لیکر عام دکان دار بھی شامل ہے۔شہر سرینگر کا جہاں تک تعلق ہے سمارٹ سٹی پروجیکٹ کی وجہ سے ان چھوٹے دکانداروں کو پھر سے مسائل سے دوچار ہو نا پڑرہا ہے۔
لال چوک جو کہ وادی کا تجارتی مرکز ہے ، میں موجود کاندار بے حد متاثر ہورہے ہیں ،یہاں اب عام آدمی جانے سے کتراتا ہے کیونکہ یہاں جانے کے لئے اب آٹو رکشا کا استعمال کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں مسافر بسوں کی آوا جاہی بند ہو چکی ہے یا بند کردی گئی ہے۔لالچوک کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے شجر ممنوع قرار دینا ،یہاں کی تجارت کی کمر توڑنے کے مترادف ہے ۔لالچوک کو تجارت کا مرکز بنائے رکھنا بے حد لازمی ہے ۔ اسی طرح شہر خاص کے خانیار ،بہوری کدل،راجوری کدل،نوہٹہ ،گوجوارہ اور حول علاقوں میں سڑکوں ،لینوں اور ڈرینوں کی سست رفتاری سے مرمت سے شہر خاص کا حلیہ ہی تبدیل ہوگیاہے ۔یہاں گھنٹوں تک ٹریفک جام رہتا ہے اور عام لوگ یہاں خریداری کرنے سے یہ سوچ کر پرہیز کرتے ہیں کہ اگر وہ ٹریفک جام میں پھنس گئے، تو اُن کا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا ،لہٰذا وہ آن لائن شاپنگ کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ان چھوٹے دکانداروں سے بات کرنے پر معلوم ہو رہا ہے کہ وہ دن بھر ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور وہ دکان کا کرایہ اور بجلی فیس کے علاوہ میونسپل کارپوریشن کی فیس ادا نہیں کر پاتے ہیں جن میں بے تحاشا اضافہ بھی ہوا ہے۔
کسی بھی ملک ریاست یا یونین ٹریٹری کی کُلہم ترقی کے لئے ان چھوٹے تاجروں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، جب وہ بہتر ڈھنگ سے اپنی تجارت کر سکیں تب ہی وہ ٹیکس اور دیگر فیس ادا کرسکتے ہیں۔اب چونکہ وادی میں سردی کا سیزن بھی شروع ہو چکا ہے اور اب برف و باران کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ، ان حالات میں ان دکانداروں پر کیا کچھ گزرے گی ، خدا جانے ۔ان حالات میں انتظامیہ کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی کہ وہ ان چھوٹے دکانداروں کے دکھ اور درد کو محسوس کرے اور انہیں کسی نہ کسی طریقے سے راحت پہنچانے کی کوشش کرے، تاکہ وہ بھی اپنے اہل وعیال کی بہتر ڈھنگ سے پرورش کر پائیں ۔ نہیں تو یہ تاجر غربت و افلاس کی دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے اور سخت قدم اٹھانے پر بھی مجبور ہوسکتے ہیں ۔ان تمام باتوں پر انتظامیہ خاص کر ایل جی کے صلاح کاروں کو غور کرنا چا ہیے اور ان تاجروں کے دکھ ودرد کا مداوا کرنا چاہیےاور امن کےساتھ ساتھ تجارت کو بھی فروغ مل سکے۔