1947میں آج ہی کے دن جموں وکشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا حصہ بننے کے لئے الحاق کے معاہدے پردستخط کئے تھے۔ موجودہ مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ 5اگست 2019کے فیصلہ جات سے جموں کشمیر اب پوری طرح سے بھارت میں ضم ہواہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھی اس حصے سے ملایا جائے گا اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان زیر انتظام کشمیربھی بھارت کا حصہ ہوگا ،جس پر پاکستان کا غیر قانونی قبضہ ہے۔
تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو مورخین کا ماننا ہے کہ سابق ریاست جموں وکشمیر جو اس وقت مرکز کے زیر انتظام خطہ کہلایا جاتا ہے اور دو مرکزی زیر انتظام حصوں میں منقسم بھی ہوا ہے ،1846سے1947تک متحدہ ہندوستان میں ایک آزاد و خودمختار ریاست تھی جو1846 میں پہلی انگریز سکھ جنگ کے بعد تشکیل دی گئی جب پنجاب کے سکھوں نے انگریز کو 75لاکھ تاوان کی مد میں کشمیر انگریز کو بیچ دیا تو جموں کے مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریز کو 75لاکھ ادا کر کے ایک معائدہ کیا جو امرتسر میں ہوا اس معائدے کے تحت کشمیر کے ان علاقوں کو جو سکھوں نے انگریز کو تاوان میں دے دیے تھے گلاب سنگھ نے واپس لے کر جموں کے ساتھ ملا کر ریاست جموں کشمیر کی بنیاد رکھی یاد رہے، یہ معائدہ 16مارچ1846 کو امرتسر میں ہوا۔1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی ایک سے الحاق کر لیں۔تاہم پاکستان نے 22اکتوبر1947 کوریاست جموں کشمیر پر مظفرآباد۔ پونچھ سے حملہ کیا گیا اور گلگت میں بھی ریاست جموں کشمیر کی حکومت کے خلاف بغاوت کروا دی۔ یوں پاکستان نے ریاست میں قتل و خون کی ہولی کھیلی۔
مہاراجہ جموں کشمیر نے جب دیکھا کہ پاکستان معائدہ توڑ چکا ہے اور ریاست میں قتل وغارت کر رہا ہے، تو اس نے بھارت سے مدد طلب کی۔ اسی بنیاد پر 26اکتوبر1947 کو مہاراجہ نے ریاست جموں کشمیر اور حکومت بھارت کے درمیان معائدہ کیا اور تین چیزوں (دفاع ،خارجہ امور اور رابطہ )پر مشروط الحاق کا معائدہ کیا ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ۔جموں وکشمیر کی سبھی سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جموں وکشمیر کا بھارت کیساتھ الحاق حتمی ہے ۔تاہم بعض کا ماننا ہے کہ الحاق مشروط ہے اور جموں وکشمیر کو آئین ہند میں بعض حقوق تفویض کئے گئے ،جو بقول اُن کے’ اسپیشل اسٹیٹس ‘کی صورت میں دئے گئے ۔جموں وکشمیر کی اندرونی اور عارضی خود مختاری کو موجودہ مرکزی حکومت نے ختم کرکے مکمل انضمام کا دعویٰ کیا ہے ۔
تاہم اب بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ جموں وکشمیر مکمل طور پر منقسم کیوں ہے؟ ۔مرکزی حکومت کے فیصلہ جات سے خطہ لداخ الگ ہوگیا ،پاکستان کے پاس گلت بلتستان اور مظفر آباد ہے جبکہ جموں وکشمیر (یوٹی ) بن چکا ہے ۔ان تمام خطوں کو ایک ساتھ جوڑ نے کی سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ،تاکہ جموں وکشمیر مکمل ہوکر حقیقی تعمیر وترقی سے ہم آہنگ ہوسکے ۔اس سمت میں سیاسی جماعتوں کو اہم رول ادا کرنا ہوگا اور تین دہائیوں سے جاری خون خرابے کو مستقبل میں روکنے کے لئے ایک متحدہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے جبکہ مرکز کو بھی اب اعتماد کی فضا کو قائم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہیے ۔سیاست اگر عوامی مفادات پر کی جائے تو دوررس نتائج برآمد ہوں گے ،لیکن اگر یہ مخصوص سیاسی مفادات پر کی جائے تو نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔