حوصلہ افزائی کیو ں نہیں۔۔۔؟

حوصلہ افزائی کیو ں نہیں۔۔۔؟

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور سماجی بیداری میں قلم کاروں ،ادیبوں اور دانشوروں کا انتہائی اہم رول ہو تا ہے کیونکہ سماج کا یہ طبقہ نہ صرف حساس ذہن کے مالک ہو تا ہے، بلکہ اس طبقے میں دوسروں کو مائل کرنے کی قوت بھی موجود ہوتی ہے۔جموں کشمیر ملک کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی اپنی ایک الگ اور منفرد پہچان ہے ۔اس حصے کی زبانیں اگر چہ مختلف ہیں لیکن یہاں کی تہذیب ،تمدن اور ثقافت ایک ہے۔مقامی زبانوں کو محفوظ کرنے اور نئی نسل کو اپنی پہچان اور شناخت باور کرانے میں سماج کے اس حساس طبقے کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات کے دوران علم و ادب کونہ صرف نقصان پہنچا ہے بلکہ ہمارے اس خطے کے اکثر ادیب ،شاعر و دانشور بھی حالات کی وجہ سے خاموش رہے۔وادی کے اکثر قلمکاروں نے اپنی قلم توڑ کر خود کو اُن طاقتوں اور عناصرکے ساتھ وابستہ کیا جو اس خطے میں نہ صرف امن و امان کو تباہ کرنے کی نیت رکھتے تھے ، بلکہ وہ یہاں کی زبان ،ثقافت ،تہذیب و تمدن کو بھی تبدیل کرنا چاہتے تھے۔حالات نے کروٹ بدلی اور ان قلمکاروں نے بھی دھیرے دھیرے اپنے قلم کو دوبارہ جنبش دے کر حقیقت کو آشکار کرنے کی ٹھان لی۔آج وادی کے کونے کونے میں ادبی تقاریب کا اہتمام ہو رہا ہے ،ڈرامہ فیسٹول منعقد کئے جارہے ہیں ۔گیت سنگیت کی محفلیں سجائی جارہی ہیں ۔سرکاری اور غیر سرکاری ادارے پھر ایک بار حسب معمول کام کرنے لگے۔جو کہ ایک اچھی بات تصور کی جارہی ہے۔

ادبی حلقوں میں ایک بات زیر بحث آرہی ہے کہ آخر آج کی تاریخ میں پھر اُنہی قلمکاروں،ادیبوں اور شعراءحضرات کو ہی انتظامی افسران کیوں آگے لے جانے میں پیش پیش رہتے ہیں جنہوں نے تین دہائےوں کے طویل وقت میں خاموشی اختیار کی تھی۔اس کے برعکس جنہوں نے ان نامساعد حالات میں بھی اپنی پہچان اور شناخت کو زندہ رکھنے کے لئے مسائل و مشکلات جھیلے ہیں، اُنہیں آج پس پشت کیوں ڈالا جارہا ہے۔وادی میں سینکڑوں کی تعداد میںنئے قلمکار ،ادیب ،دانشور ،شاعر اور محقق موجود ہیں لیکن انہیں سرکاری سطح پر کسی قسم کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی ہے بلکہ وہی پرانے لوگ ہر محفل اور اسٹیج پر نظر آرہے ہیں جو کبھی اُن محفلوں کی زینت مانے جاتے تھے جن محفلوں کی بدولت یہاں کے ثقافتی ورثے ،زبان ،تمدن اور بھائی چارے کو کافی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

ایسے لوگوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے کل کی تاریخ میں اگر کوئی اور ہوا چلے گی تو ان لوگوں کو اپنا منہ موڑنے میں دھیر نہیں لگی گی کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا نہیں چاہئے۔لہٰذا حکومتی اداروں کے ذمہ داروں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور نئے نوجوان قلمکاروں ،شعراء،ادیبوں اور دانشورں کو آگے بڑھنے کا موقعہ فراہم کرنا چاہیے جو نئے سوچ کے مالک بھی ہیں اور انہوں نے انٹرنیٹ کے سہارے دنیا کی سیر بھی کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.