وقت کی اہم ترین ضرورت

وقت کی اہم ترین ضرورت

جموں کشمیر جو ہمیشہ ملک کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر شہ سرخیوں میں رہتا ہے، آج بھی سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک طرف سپریم کورٹ میں دفعہ 370اورA 35- کے حوالے سے ہرروز اس خطے سے متعلق بات ہورہی ہے اور دوسری جانب پاکستان اور چین کی نظریں بھی اس خطے پر مرکوز رہتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک کسی نہ کسی طرح میڈیا میں اس حوالے سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ملک کی پارلیمنٹ نے 5اگست 2019کو ایک اہم اور تاریخی فیصلہ لیتے ہوئے نہ صرف ان خصوصی دفعات کا خاتمہ کیا تھا بلکہ جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے لداخ والوں کی دیرینہ مانگ بھی پوری کی ہے جو ہمیشہ سے ہی یہ نعرہ لگاتے تھے کہ جموں کشمیر کے ساتھ رہ کر ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور حکمران یکسان صوبوں کی ترقی کی جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اس اہم اور تواریخی فیصلے سے نہ صرف جموں کشمیر اور لداخ خطوں کی ترقی میں اضافہ ہوا بلکہ اس اقدام سے وادی میں امن و امان کی فضا بھی قائم ہوئی جس کے لئے عام کشمیری انتہائی بے چین تھے۔وادی کشمیر میں رشوت ستانی ،لوٹ کھسوٹ ،کنبہ پروری اور اثر و رسوخ کا بُول بالاہر سو چھایا ہو ا تھا اور عام لوگ ہمہ وقت پریشان رہتے تھے۔دھونس دباﺅ یا سخت اقدامات سے ہی لیکن نظام میں بہت حد تک بہتری آنے لگی۔اب چونکہ سپریم کورٹ میں چند جماعتوں کے لیڈران نے عرضی دائر کی تھی کہ جموں کشمیر کو اپنا حق واپس دیا جائے اور اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے ایک خصوصی بینچ نے چیف جسٹس آف انڈیا کی سر براہی میں خصوصی شنوائی کی اس طرح اپنی آزاد حیثیت بحال رکھی ۔

گزشتہ روز اس حوالے سے ایک رائے سامنے آئی کہ جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دینا چاہئے جہاں تک خصوصی دفعات کا تعلق ہے اُنکی وجہ سے اس خطے کے باشندوں کو ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ یکسان ترقی میں دشواریاں پیش آتی تھیں ۔یہاں یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی انتخابات کے ذریعے سے عوامی حکومت قائم ہونی چاہئے تاکہ لوگ اپنے منتخب نمائندوں کی وساطت سے اپنے روز مرہ مسائل کا حل تلاش کر سکیں۔یہ ایک خوش آئندہ بات ہے کہ اگر جموں کشمیر میں انتخابات ہو جائیںاور لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے سے صحیح نمائندوں کا انتخاب کریں،تو اس عمل سے مرکزی سرکار کی پریشانیوں میں کسی حد تک کمی آجائےگی ۔اگر وہ ریاست کا درجہ دیکر ان نمائندوں کو بااختیار بنانے کی سعی کر ے اور ساتھ ہی ساتھ اُن لوگوں کے منہ پر بھی مہر لگ جائےگی جو ہمیشہ یہ رٹ لگاتے رہتے ہیں کہ جموں کشمیر میں جمہوری نظام کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب جموں کشمیر میں منتخب ہونے والی سرکار کے لئے رہنما خطوط بھی گزشتہ چار برسوں کے دوران سامنے آئے ہیں کہ کس طرح جموں کشمیر کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے اور کس طرح انتظامی امور چلائے جاسکتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.