کشمیر کی بید بافی نئے ڈیزائن اور نئی شکل و صورت سے دنیا میں مقبول ہو رہی ہے

کشمیر کی بید بافی نئے ڈیزائن اور نئی شکل و صورت سے دنیا میں مقبول ہو رہی ہے

سری نگر:وادی کشمیر کی قدیم ترین اور شاندار دستکاریوں میں بید کی ٹہنیوں سے مختلف قسموں کی چیزیں بنانے کی دستکاری یعنی ‘بید بافی’ جو مقامی طور پر ‘کانہ کام’ کے نام سے بھی موسم ہے، ایک اہم دستکاری ہے جو آج کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں نہ صرف زندہ و تابندہ ہے بلکہ دنیا بھر میں مشہور ومقبول بھی ہو رہی ہے۔
وسطی ضلع گاندربل کے پیر پورہ سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد ڈار نامی ایک دستکار کا کہنا ہے کہ یہ دستکاری روز گار کا ایک موثر ذریعہ ہے اور آج اس کی مانگ کافی اچھی ہے اور نئے ڈیزائن اور شکل و صورت سے یہ دستکاری دنیا بھر میں مشہور ہو رہی ہے۔
انہوں نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کہا: ‘میں گذشتہ 35 برسوں سے اس صنعت سے وابستہ ہوں اور آج اس کی مانگ بہت اچھی ہے’۔
ان کا کہنا تھا: ‘کم سے کم دس ہزار لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں اور اچھی طرح سے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں نئے لوگوں کو بھی یہ ہنر سیکھنا چاہئے اور سیکھ بھی رہے ہیں’۔
موصوف دستکار نے اس دستکاری کے لئے ضرورت خام مواد کی دستیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے ضرورت خام مواد یہیں دستیاب ہے۔
انہوں نے کہا: ‘بید کی ٹہنیوں کو ایک دن تک پانی میں رکھنے کے بعد نکال کر گرم پانی میں ابالا جاتا ہے جس کے بعد ان ٹہنیوں کو سُکھایا جاتا ہے اور بعد ازاں ان کے چھلکے اتار کر ان کو مختلف چیزیں بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کم سے کم ڈیڑھ سو ایٹم بناتے ہیں جن میں ٹوکریاں، ٹیبل، کرسیاں، مجمے، گملے وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ٹوکریاں ہی کئی ڈیزائنوں کی تیار کرتے ہیں۔
بشیر احمد کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کی مانگ بڑھ رہی ہے خاص طور پر شادیوں کے سیزن کے دوران کام زیادہ ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے نئے ڈیزائن بھی ملتے ہیں جن کو ہم تیار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں کے لوگ بھی ان چیزوں کو شوق سے خرید کر اپنے گھروں کی زینت بناتے ہیں۔

 

موصوف دستکار نے سال رواں کے ماہ مئی کے اواخر میں سری نگر میں منعقدہ جی ٹونٹی ٹورزم اجلاس کے لئے نمائش میں بھی حصہ لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس نمائش کے دوران کئی ملکی و غیر ملکی مندوبین نے مختلف چیزیں اپنے ساتھ لیں۔
انہوں نے کہا: ‘جی ٹونٹی اجلاس سے ہمیں کافی سپورٹ ملا ہمیں ابھی غیر ملکی سطح پر کوئی آرڈر نہیں ملا لیکن مقامی سطح پر آرڈر مل رہے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا: ‘ہم آن لائن بھی اپنا مال ملک کی مختلف ریاستوں کے خریداروں کو بیچتے ہیں اور ہمارے کارخانے پر بھی خریدار آکر اپنی پسند کی چیزیں خریدتے ہیں’۔
بشیر احمد ‘شاخساز ولو وکر پروڈوسر کمپنی لمیٹڈ’ کے نام سے اپنا کارخانہ سال 2020 سے چلا رہے ہیں جس میں وہ دن رات محنت کرکے آرڈروں کو پورا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ‘ہم مختلف قسموں کے نئے ڈیزائن کے ایٹم تیار کر ہے ہیں جن میں کچھ چیزوں کو ہم چمڑے کے ہینڈل لگاتے ہیں تو کچھ کو ‘زپ’ لگاتے ہیں اور ایسی چیزوں کی مانگ کافی بڑھ رہی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان دنوں ورلڈ بینک کے ایک پروجیکٹ کے آرڈر کو پورا کر رہے ہیں جو ہمارے کولکتہ کے ایک بیوپاری کو ملا ہے۔
موصوف دستکار نے کہا کہ ہمارے بچے یہ کام کرتے ہیں اور مختلف قسموں کے ایٹم تیار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دس نوجوانوں کو یہ ہنر سکھایا اور جو بھی یہاں آئے گا اس کو ہم یہ کام مفت سکھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی نوجوان اس ہنر کو سیکھنے کی تریبت حاصل کر رہے ہیں۔
بشیر احمد نے کہا کہ جو بھی اس پیشے کو اختیار کرے گا اس کو دوسری جگہ نوکری تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ‘پہلے اس کام پر ایک دستکار یومیہ 2 سے 3 سو روپیہ کما سکتا تھا لیکن آج ایک دستکار یومیہ کم سے کم ایک ہزار روپیہ کما سکے گا’۔
حکومت کی طرف مدد فراہم کرنے پر ان کا کہنا تھا: ‘حکومت ہماری بھر پور مدد کر رہی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں منعقد ہونے والی نمائشوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور وہاں اپنی اس دستکاری کی نمائش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کام سے جڑ کر اپنی روزی روٹی کمانی چاہئے۔
یو این آئی ایم افضل- ارشید 

Leave a Reply

Your email address will not be published.