جموں وکشمیر میں گزشتہ تین برسوں کے دوران حالات کافی تبدیل ہوئے ہیں ۔دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد مرکزی حکومت نے جس طرح کے اقدامات اٹھائے ،اُن سے نہ صرف جموں وکشمیر کی فضاءمیں بدلاﺅ دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملی ٹنٹ سرگرمیوں میں بھی بہت حد تک روک لگ گئی ہے ۔تاہم اب بھی کئی معاملات پر سیاست کا کھیل جاری ہے ۔عوام مفادات اور حقوق کی پاسداری پر سیاست کرنا سیاستدانوں کا حق ہے جبکہ سیاسی اختلافات کا بھی احترام لازمی ہے ۔تاہم اس وقت ملک بھر کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی سیاست کامفہوم ہی تبدیل ہوچکا ہے ۔
اب سیاست اپنے مفادات کی خاطر ہورہی ہے ۔سیاسیات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر سیاسیات کہتے ہیں کہ سیاست ان الفاظ میں سے ایک لفظ ہے جو بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور ہر کسی کی زبان پر جاری ہوتا ہے، حتیٰ بعض اوقات اس کو بولنے والا، اس کے مفہوم ومعنی کی بو تک کو نہیں جانتا۔ یہ لفظ ان مقدس الفاظ میں سے ایک لفظ ہے جس کو لوگوں نے غلط جہت دی ہے ، غلط تفسیر کی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس لفظ کی حقیقت سے آشنا نہیں ہے، خاص کر ہمارے معاشرے میں اس لفظ کو اپنے اصل معنی سے تبدیل کر کے کسی دوسرے معنی (دھوکہ ،فراڈ اور مکاری جیسے معنوں ) میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر کوئی اچھا انسان سیاسی میدان میں آجائے اور انسانیت کی خدمت کرنا چاہے جو کہ بہترین عبادات میں سے ہے تو کچھ خشک مقدس اور جاہل لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا سیاست سے کیا تعلق۔۔۔؟ آپکو دوسرے اچھے کام کرنے چاہیے، سیاست آپ کا کام نہیں بلکہ یہ سیاستدانوں کا کام ہے اور اس سے ملتی جلتی تمام وہ باتیں جو ہمارے معاشرے میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ تصور لفظ سیاست کے معنی اور مفہوم کو نہ جاننے کا نتیجہ ہے یا سیاست کی غلط تفسیر اور غلط طریقے سے پیش کرنے کا نتیجہ ہے۔
یہی وجہ ہے آج ہمارے معاشرے میں لفظ سیاست ایک قابل ِ شرم اور متنفر لفظ کے طور پر جانا جاتا ہے اور جو شخص سیاست کو اپنا شعبہ قرار دیتا ہے اسکو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔خاص کر کوئی عالم دین اس میدان میں قدم رکھے تو بس واویلا ہوتا ہے کہ عالم کا سیاست سے کیا تعلق۔۔۔؟ عالم کا کام مسجد اور امام بارگاہ ہے سیاست عالم کا کام ہی نہیں۔نوجوان نسل بھی اس نظام سے کسی حد بد ظن ہے ۔اگر نوجوان سیاست کے میدان میں آگے بھی آئیں تو اُنہیں مورثی سیاست کے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے ۔
بہرحال یہ سیاست کا ایک پہلو ہے ۔سیاست کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی راہنما عوام کی آواز بن کر ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور عوام کی ترجمانی بھی کرتے ہیں ۔امن وامان ہو ،تعلیم ہو ،صحت ہو ،معیشت ہو ،کھیل ہو ،تہوار ہو الغرض جو بھی شعبہ اور سرگرمی ہو ،اس پر سیاست کرنا ایک آسان طریقہ بن چکا ہے ۔حزب اختلاف کی آواز کو اس لئے دبا یا جاتا ہے ،کیوں کہ اقتدار کی طاقت کے ذریعے کئے جانے والے فیصلوں کو جائز ٹھہرا ناہے ۔صحیح فیصلوں کو عوام کی عدالت میں چھوڑا جائے اور عوام کو فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے کہ لئے گئے فیصلہ جات اُن کے حق میں ہیں یا نہیں ؟۔امن وامان اور سیکیورٹی کے نازک معاملات پر سیاست کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ۔لیکن اب تو وہ سیاست کرتے ہیں ،جنہیں سیاست کیساتھ کوئی تعلق یا وابستگی نہیں ہے ۔ سوچ بدلیں عوام کے حقوق اور مفادات کو ملحوظ ِ نظر رکھ کر کمال ِ سیاست کے بام چھڑ نے کی ضرروت ہے ۔