کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

قبائلی انخلائ

دیگر چار دنوں تک پنڈی میں حالات اب بھی بڑے بڑے توقعات سے پر تھے۔ قبائلی کامیابیوں کی خبریں اب بھی پھیل رہی تھیں اور ہر گھنٹہ روایتی حصہ تصور ہو رہا تھا۔ سرینگر کا زوال یقینی ہو گیا تھا اور خوش کن خبروں کا بے صبری سے انتظار تھا۔
تبھی ایک صبح خبر آئی کہ بھارتی سرینگر سے باہر آرہے ہیں اور قبائلی بغیر مذاحمت کے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ یہ خبر فرنٹیئر چیف منسٹر قیوم خان کی طرف سے آئی جو خورشید انور سے رابطہ میں تھے۔ چیف منسٹر ایبٹ آباد چل نکلے جہاں دوسرے لوگوں سے ملے اور انہیں وہیں قبائلی رہنماﺅں سے ملنا تھا۔
اسی دن دیر شام کو ایبٹ آباد سے ایک فون کال موصول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ درمیانی شب میں پنڈی پہنچ رہے ہیں اور میرے گھر مجھ سے ملاقات کرنے آئیں گے۔ جب عبدالقیوم خان اور نواب ممدوت کے ساتھ کرنل اے ایس بی شاہ، سیکریٹری برائے فرنٹیئر ریجنس پہنچے، انہوں نے بتایا کہ قبائلی 65میل پیچھے ہٹ چکے ہیں اور انہیں فرنٹ تک واپس جانے کے لئے منانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور تو کیا میں آگے کی ذمہ داری میں سنبھال لوں گا ؟
میں نے مشورہ دیا کہ انہیں وزیر اعظم کو فون کرکے صلاح مانگنی چاہئے ۔ انہوں نے پہلے ہی یہ کام کر لیا تھا اور جواب تھا کہ پاکستان حکومت مداخلت نہیں کرے گی۔ نہ ہی کوئی حکومتی کار ندہ اس میں کھلے عام شریک ہوگا اور اب بھی تمام قیمت پر شوکو آگے بڑھنا ہی تھا۔
لیکن وہاں ایسا کیا تھا جو میں کر سکوں؟ گویا میں مدد کی خواہش کر رہا تھا ۔ تنہا اسٹاف آفیسر میں ہی تھا، جب کہ جنگ میں کوئی فوج نہیں اور نہ ہی بندوق ک آگے بڑھا جائے۔ انہوں نے دوسرے لوگوں کو بھی دیکھا تھا اور کوئی ترقی نہیں تھی۔ انہوں نے سینئر پاکستانی کمانڈوں سے پنڈی، نوشہرہ اور شاور میں ملاقات کی لیکن کوئی مدد نہ مل سکی ۔ لیکن معاملے کو یونہی نہیں چھوڑا جا سکا تھا۔ جو میں کر سکتا تھا اسے کرنے کا وعدہ کیا اور وہ یہ کہ میں خود فرنٹ پر جا کر دیکھو کہ آیا کچھ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مجھے نقل و حمل کےلئے ایک جھگا گاڑی اور مقبوضہ وائر لیس سیٹ دینے کا وعدہ کیا۔ کیپٹن تسکین الدین میرے ساتھ اسٹاف آفیسر کی حیثیت سے چلنے کےلئے رضا مند ہو گئے اور میں نے دو رضا کار رہبر کو لے لیا تاکہ وہ وائرلیس سیٹ کو چلا سکیں۔ اگلی صبح میں آگے بڑھنے کو تیار تھا۔
قبائلیوں کی علیحدگی قدم بقدم پیچھے ہٹنا نہیں تھا بلکہ پیچھے ہٹنا اور مکمل غائب ہو جانا۔ قابل دید ترقی کا اچانک اختتام کو پہنچنا بہت گمراہ کن تھا۔ اس وادی کے لوگ جو کئی نسلوں سے غیر ملکی حکمراں کی حکومت میں زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اس پر قابو پانا ممکن ہے۔ تبھی اچانک ایک دن مہاراجہ کا طاقت ور ڈھانچہ گرنے لگا۔ اور اب یکا یک وہ ویران ہو گئے اور دو بارہ اسی جابر کے رحم و کرم پر زندہ رہے۔
اپنے قانونی حقوق اور اپنی آرمی کے پیچھے مورچہ بند مہاراجا نے ذلت آمیز انداز میں اپنی سرحدوں پر پائے جانے والے اضطراب سے زیادہ بڑی کسی چیز کی توقع نہیں کی تھی ۔ تبھی اتنازور سے دھماکہ ہوا کہ چوتھے دن وہ اپنی دارلحکومت سے بھاگ نکلا اور اب ایک ہفتہ ہی ہوا تھا بعد اس کے کہ یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہر چیز ہمیشہ کےلئے کھو چکی ہے وہ دو بارہ اس وادی کا ملک بن بیٹھ جو اسے سب سے زیادہ عزیز تھی۔
قبائلیوں کی صلاحیتوں اور حدود پر مامور سمجھے جانے والے بھارت اور پاکستان میں تجربہ کار سپاہیوں نے صرف کچھ گھاتوں اور لوٹ مار کے واقعات کا اندازہ کیا تھا۔ اس کے بعد بجلی کی رفتار سے 120 میل تک اندر گھس گئے۔ جو ماہر کی رائے کو حیرت زدہ کرنے والا تھا اور اب جب انہوں نے مشکل سے اپنے ذہنوں کو ایڈجسٹ کیا تھا۔ تو یہ فلائٹ آئی اور مکمل گمشدگی ہو گئی۔ اب انہیں کیا سوچنا تھا؟ بھارتی جانب پر کم ز کم وہ ایسا ظاہر ہوئے کہ نہ تو گمشدگی دیکھی جا سکے یا انہوں نے چال بازی سے کام لیا۔ کیونکہ وہ خلا پر قابض ہونے کےلئے دوڑ کر آگے نہیں بڑھے۔
اگرچہ بھارتی دعویٰ کرتے ہیں کہ 7نومبر کو سرینگر کے مضافات میں انہوں نے بارہ گھنٹہ جنگ لڑی، حقیقیتاً قبائلیوں نے دو دن پہلے ہی انخلاءکر لیا تھا سوائے چند چھپ کر گولی چلنے والے کے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ بھارتی مزید یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس دن میدان میں 500 قبائلی مارے گئے تھے۔ وہ لوگ جو جنوبی مغرب فرنٹیئر کے قبائلی سے واقف ہیں وہ صحیح طور پر جان لیں گے کہ اس قصہ کے بارے میں کیا سوچنا ہے۔ شاید یہ افریقی سہارا کے ان درویشوں کے ساتھ پیش آسکا جن کی عادت ہی گروہ میں لڑنا تھی یا ان زمانہ قدیم کے ان راجپوتوں کو پیش آسکا جنہوں نے عزت کی موت مرنا پسند کیا۔ لیکن یہ فرنٹیئرقبائلیوں کو پیش نہیں آسکا جو تنہا تنہا گوریلا کی طرح لڑتے ہیں اور جو کشمیر میں ر میت کو 400 میل دور اپنے وطن لے جانے کی ضد کرتے تھے۔ ہماری طرف کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ علیحدگی کی خبر حیرت انگیز ہے کیونکہ حقیقتاً میں کوئی سنگین لڑائی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی سنگین واقعہ پیش آیا۔

علیحدگی کو سمجھنے کےلئے قبائلیوں کو ان کے طریقہ کار کو اور اس وقت کی موجودہ صورتحال کو سمجھنا پڑے گا ۔ ان قبائلیوں کا جاننا بہت اہم ہے۔ اس لئے نہیں کہ انہوں نے کشمیر میں کیا کیا ؟یا ناکام ہوئے بلکہ ہندو پاک رشتوں اور شاید وسطی ایشیا ءمیں ہر چیز کے وقوع میں ان کی اہمیت کی وجہ سے تقسیم سے قبل حساب کے مطابق صرف فرنٹیئر کے کچھ حصوں میں 200000 قبائلی مسلح تھے۔ یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کثیر نمبر کو چھوڑ دیں تو ان کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کون ہیں۔
انہوں نے اس سر زمین کے اس اسٹریجک بیلٹ پر قبضہ کیا ہے۔ سر اولاف کیرو کے مطابق جس نے شائد ایشیاءیا واقعی دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں تاریخ کے دور میں زیادہ حملے دیکھے ہیں۔ جہاں سورج اور ہوا میں ایک اعلیٰ خواہش ہے اور جہاں ناہموار پتھروں کی نہ ختم ہونے والی حدیں تاثر کی طاقت کے مالک ہیں۔ (پٹھان از اولاف کیرو)
کچھ قبیلے ان جگہوں میں اتنی مدت سے آباد ہیں کہ تاریخ اس کے بیان سے قاصر ہے۔ وہ لوگ شاید وہاں ڈیریس اور زر زیس 480-510 قبل مسیح) میں تھے اور انہیں ہیرو ڈوٹس میں انہوں نے ان خطوں کے سب سے پہلوان لوگوں کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ بعد کی صدیوں میں انہوں نے مسلم آمد اور فتح بند کے ہر اول بنائے۔ پہلے قسمت کے فوجی اور بعد میں انتظامیہ اور بادشاہ۔
اس تمام اوقات میں پہاڑوں میں ان کے اپنے آبائی علاقے جن کے ذریعے طاقت کے وسیلے سے ایک گزر گاہ متاثر ہوا۔ کبھی بھی کسی بیرونی طاقت کے تابع نہیں ہوئے۔ پٹھان بادشاہ بھی اس میں شامل تھے۔ چنانچہ اس بلٹ میں سکندر، چنگیز خان اور تیمور لنگ سمیت لا محدود حملہ اوروں کے گزرنے کے باوجود قبائلی شکل کی یہ سوسائٹی ثابت قدم رہی۔ انفرادی اور ہمیشہ اپنی آزادی کے لئے لڑنے کو تیار۔
یہ لوگ آج بھی دنیا کے بہترین جنگجو سمجھے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں برطانوی مد مقابلوں نے دنیا کا سب سے جانباز فیصلہ کن مانا ہے کیونکہ انہوںنے کبھی دشمن کی غلط چال کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑا۔ ان ہی میں سے کچھ کشمیر چلے گئے۔ تب ایسا کیوں تھا کہ وہ لوگ ناکام رہے؟
ان کی ناکامی مظفر آباد کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی۔ ان افراد کے پاس ہر ایک عمل کےلئے جنگ کی طویل کونسلوں کے انعقاد کا ایک وسیع نظام موجود ہے۔ جہاں تمام سیاق و سباق پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اگر ہر آدمی نہیں، تو کم از کم ہر گروہ انفرادی طور پر اجازت شدہ کام کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے۔ اس طریقہ سے انہوں نے اپنے پہلے ٹارگٹ مظفر آباد پر بہترین حملہ کیا۔ لیکن اس کے بعد اپنے بر عکس، انہیں آسانی سے ہجوم میں آگے بڑھایا گیا جس نے بارہمولہ تک کافی حد تک کام کیا اور ہو سکتا ہے کہ وہ سرینگر میں بھی کام کرتے جب وہ بھارتی فوج کی آمد سے قبل وہاں پہنچ جاتے۔ تاہم بارہمولہ میں جب سرینگر میں پہنچنا آسان تھا تو وہ دو دن کے لئے پیچھے رہ گئے تھے اور اس طرح ان کا بہترین موقع ضائع ہو گیا اور پھر بارہمولہ سے ہی یہ کام کسی کردار کو ان کی خوبیوں اور طریقوں سے کسی حد تک نا پسندیدہ سمجھنا شروع ہو گیا تھا۔
اپنے ہی ملک میں قبائلی چھپ کر حملہ کرنے والے اور چھاپہ مار کی طرح لڑتے تھے۔ وہاں وہ اپنی جان لیوا ٹکراﺅ سے فوجیوں کو نہایت ہی ہراسان کر سکتے تھے۔ وہ تعاقب کر عقبی محافظوں کو کاٹ سکتے تھے۔ وہ فوج اور ٹرانسپورٹ پر گھات لگانے کے فن میں ماہر تھے۔ وہ ویران پوسٹوں پر حملہ کر سکتے تھے۔ لیکن دو چیزیں تھیں جنہیں انہوں نے نہیں کیا۔ وہ دفاعی پوزیشنوں میں فوجیوں پر بھی حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے اور انہیں فوجیوں کے ذریعہ حملہ کرنے کے لئے دفاعی پوز یشنوں پر بیٹھنا پسند نہیں تھا۔

یہ کافی فطری تھا کیونکہ ان دونوں مثالوں میں فوجیوں کے پاس آرگنائزیشن ، ڈسپلن اور بھاری ہتھیار تھے۔ فوجی دستوں کے منظم حملے کے خلاف فوجی دستوں پر حملہ کرنا یا کسی خاص جگہ کا دفاع کرنا، دونوں میں طویل اور بھاری لڑائی شامل ہے۔ فوج یہ کام کر سکتی ہے کیونکہ اس کی انتظامی تنظیم لڑائی کے دوران گولہ بارود کی بھرائی، ہلاکتوں کو نکالنے اور راشنوں کی فراہمی کے لئے ڈیزائن کی گئی ہے۔ مزید برآن وائرلیس، فیلڈ ٹیلیفون، سگنلنگ جھنڈوں اور میسنجر جیسے باہمی رابطوں کے اچھے ذرائع کی وجہ سے آرمی کمانڈ اپنے فوجیوں کو کسی وقت اور فاصلہ میں کنٹرول کرکے ہدایت دے سکتے ہیں اور فوج کے پاس بھی مشین گن، برنز، مارٹر، توپ خانے اور ہوائی جہاز جیسے بھاری ہتھیار ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ قبائلیوں کو اس نوعیت کی لڑائیوں میں ڈالنے کےلئے با قاعدہ فوج کے لئے مناسب ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے قبائلی زہر کی طرح بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بجائے وہ ان حالات کو ڈھونڈتا ہے جہاں وہ اپنی عجیب برتری استعمال کر سکتا ہے۔ شروع کرنے کےلئے چونکہ وہ کسی بھی مرکزی تنظیم کے ساتھ بندھا نہیں ہے ۔ لہٰذا وہ لڑتا ہے جہاں اور جب وہ پسند کرتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے تو فوری طور پر منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ فوج یہ کام نہیں کر سکتی ہے کیونکہ وہ پیچیدہ اعلیٰ احکامات اور منصوبوں سے مربوط ہیں۔ لہٰذا قبائلی کی برتری اس کی آزادی اور نقل و حرکت میں مضمر ہے۔ وہ انتہائی غیر متوقع اوقات اور مقامات پر نمودار ہو سکتے ہیں اور یہ غیر متوقع صلاحیت اسے مستقل خطرہ بناتی ہے۔
مزید یہ کہ اس کے پاس لے جانے کےلئے صرف ایک رائفل اور چاقو ہے ور چونکہ وہ جسمانی طور پر سخت ہے۔ اس لئے وہ کسی بھی فوج سے بہت زیادہ لمبا اور تیز رفتاری سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا وہ ادھر ادھر گھومتا ہے اور صبر سے دیکھتا ہے جب تک کہ اسے کوئی مناسب ہدف نہ ملے اور پھر بجلی کی رفتار سے اس پر حملہ کر دیتا ہے۔ ایک محصور قبائلی نے با رابطہ انداز میں مجھ سے ان کی تدبیر یں بیان کیں کہ ان کا معاملہ شاہین کی طرح ہے جو آسمان پر اونچی اڑان اڑتا ہے۔ خطرے سے بچتا ہے، گول گول گھومتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے شکار کو دیکھتا ہے اور پھر وہ ایک زبردست حملہ کےلئے اس پر چھلانگ لگا دیتا ہے اور جب اسے اپنا شکار مل جاتا ہے تو وہ آس پاس انتظار نہیں کرتا ۔ وہ ایک دم کچھ دور ہر سکون جگہ پر اڑ جاتا ہے۔ جہاں وہ اپنے شکار سے لطف اندوز ہو سکے۔ قبائلی شخص واقعتاً بہت مماثل ہے۔ وہ متحرک ضرور ہوتا ہے۔ اسے اپنا وقت اور اہداف کا انتخاب کرنے کی آزادی حاصل ہے اور اس کے پاس واپس آنے کےلئے سیکورٹی ہو تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طویل عرصے سے تیار کی گئی کارروائیوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، جو اسے باندھ دیتا ہے اور واضح طور پر سرینگر کے آس پاس جو کام اس کا منتظر تھا ،وہ صرف ایک کارروائی تھی۔ اب جب کہ با قاعدہ بھارتی دستے پہنچ رہے تھے۔
فوجیوں کے خلاف اپنی لڑائی میں، اسے توپ خانے اور ہوائی جہاز سے بھی خود کو بچانا ہوتا ہے۔ وہ صرف ٹوٹے ہوئے اور پہاڑی ملکوں میں لڑنے کے ذریعہ کرتا ہے جو کور فراہم کرتا ہے۔ ایک اور نکتہ جو اس نے پہاڑیوں سے چپک کر حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں فوج اپنی موٹر گاڑیاں استعمال نہیں کر سکتی ہے اور فوجیوں کو پیدل چلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے جہاں تک تیز رفتاری اور برداشت کا تعلق ہے اسے نقصان پہنچا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں بھی سرینگر کے آس پاس کی کارروائی قبائلیوں کے لئے نا خوشگوار دکھائی دینے لگی تھی۔ کیونکہ بارہمولہ سے ہی سڑک کے دونوں اطراف کھلا میدان ہے۔
بارہمولہ کے بعد ہموار زمین کی مشکل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا کام زیادہ آسان ہو جاتا۔ اگر سرینگر کے دوسرے طرف دوسرا لشکر بھیج دیا جاتا ،یا یہ آزاد رضا کاروں کے ذریعہ کیا جاتا۔ حقیقت میں اس اثر کی ایک تجویز 27اکتوبر کو کی گئی تھی جس کو شاید زیادہ اعتماد کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا۔ 27تاریخ کو ایسا کرنے میں کچھ دیر ہو چکی تھی، لیکن یہاں تک کہ ایک جزوی کوشش بھی مدد گار ثابت ہو سکتی تھی۔ اگر بھارتیوں کو اپنے عقب پر کسی خطرے کے آثار نظر آتے، تو وہ مرکزی لشکر پر حملہ کے لئے اس شہر کو چھوڑنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ زیادہ امکان ہے کہ وہ سرینگر کو ہر طرف سے حفاظت کےلئے ایک بڑے علاقے میں خود کو بکھیر دیتے۔

27کی شب کو جموں سے نمٹنے کا خیال بھی چھوڑنا پڑا، اور دہلی اپنی پوری کوشش سرینگر پر مرکوز کرنے کےلئے آزاد تھی ۔دو دن بعد 29کی شب قبائلیوں کو سرینگر کے مضافات میں چار میل کے فاصلے پر سہارا دیا گیا۔ یہ آخری موقعہ تھا جب ان کی بکتر بند کارروائیوں یا کسی بھاری شے سے مدد کی جا سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اسکے بعد معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
گرچہ ہر گھنٹے مزید بھارتی فوج سرینگر پہنچ رہی تھی ، قبائلیوں نے تین یا چار دنوں تک اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ لیکن انہیں اس موقعہ کی نا اہلی دکھنی شروع ہو گئی ۔ جلد ہی بھارتیوں نے حملہ شروع کر دیا ۔ دفاعی پوزیشن کےلئے کوئی انتظام نہیںتھا جس سے قبائلی نکل سکیں۔ گر چہ انہوں نے ایسا کچھ کیا جس کے کرنے کا اس وادی میں کوئی امکان نہیں تھا۔ سڑک پار دفاع کسی کام کا نہ تھا کیونکہ ملک بالکل کھلا ہوا تھا۔ قبائلیوں کےلئے غیر موزوںتھا، مزید برآن دفاع وادی کے پورے (شاید 20میل ) میں پھیلا ہوا تھا۔ اسے آسانی سے بائی پاس کیا جا سکتا تھا ۔ دوسری طرف اگر وہ سڑک کو خالی چھوڑتے اور ایک طرف پہاڑیوں میں چلے جاتے تو بھارتی انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتے جس کی اجازت کوئی بھی قبائلی نہیں دیتا۔ چنانچہ یہ جلد ہی صاف ہو گیا کہ سرینگر میں داخل ہونے کا کوئی موقعہ نہیں تھا ، وادی میں کہیں رکنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا تھا جو ممکنہ طور پر بغیر کسی فائدے کے موت کا کنواں بن جاتا اور جیسا کہ قبائلیوں کا عمل ہے کہ اگر چلتے تو تیز رفتاری سے چلتے۔ ایک لمحہ میں وہ ادھر تھے اور دوسرے ہی لمحے وہ غائب۔
واپس بارہمولہ میں وادی سے باہر چند لمحے کے لئے توقف کیا۔ وہ وہاں رک سکتے تھے اگر مخصوص کم سے کم حالات موجود نہ ہوتے اور اگر وہ رکتے تو بہت ممکن تھا کہ بھارتی انہیں وہاں سے ہٹانے پر قادر نہیں ہو سکتی تھی۔ نہ ہی لمبے وقت تک ، شاید کبھی نہیں۔ لیکن کم از کم حالات نہیں تھے ۔ اپنے ہی ملک میں قبائلی اس کے اقدامی اور قلبی دستے سے ٹکر کر پیش قدمی کے کالم سے نمٹے۔ زیادہ تر انہوں نے زور سے اس پر حملہ نہیں کیا بلکہ شہد کی مکھیوں کی طرح کیا، اپنے ڈنک چھوڑ کر دوبارہ اڑ گئے۔ اگر چہ وہ واقعتاًایک مضبوط کالم روکنے میں کامیاب نہیں ہونگے۔ لیکن وہ اکثر بھاری جانی نقصان ا ٹھانے اور بڑی تاخیر کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر پیش قدمی کا کالم کمزور ہوتا تو وہ کبھی کبھی اسے روکنے میں کامیاب ہو گئے ہوتے یا پھر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے ہوتے۔ انہوں نے کئی دنوں تک اپنی سپننگ ہراساں کرنے اور چھاپے مار سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے یہ کام کیا جب تک کہ کالم خراب نہیں ہو جاتا یا اس کی فراہمی اور کمک سے کٹ جاتا۔ اپنے ہی ملک میں وہ یہ کام کر سکتے تھے کیونکہ وہاں وہ ہر وقت ان پہاڑیوں میں بکھرنے کے قابل تھے جہاں ان کے اپنے لوگوں نے انہیں زخمیوں کےلئے پناہ گاہ، کھانا، گولہ بارود اور طبی امداد مہیا کی تھی ۔ یہ حالات کشمیر میں موجود نہیں تھے۔ یہاں قبائلی بیرون ملک میں تھے جہاں وادی کے لوگ اب تک جنگ میں نہیں تھے اور ان کے پاس وسائل اور عادت بھی نہیں تھی تاکہ کچھ مدد فراہم کر سکیں۔ آخر کار اپنی تمام ضروریات کے لئے قبائلی سڑک پر منحصر تھے جہاں سے وہ بہت دور نہیں بھٹک سکے اور جس کی حفاظت ان کے لئے اہم تھی۔
چنانچہ انہیں اس مرحلہ میں جس چیز کی ضرورت تھی وہ تھی سڑک کے پاس محفوظ دفاعی پوزیشن، جس کے پیچھے وہ ر سکیں اور جس سے وہ دو بارہ آگے حملہ کر سکیں۔ یہ کوی ایسی چیز نہیں تھی جس کے لئے انہیں خصلت یا مشق کے ذریعہ موزوں بنانا تھا۔ سڑک پر بڑے بڑے پتھر رکھنا اور خندق میں بیٹھنا بالکل صحیح طریقے سے دوسرے لوگوں کےلئے ایک کام تھا ۔ کسی اچھے لیڈر کی قیادت میں سابق سروس مین کی ایک ٹیم ضروری روڑ میپ فراہم کرنے پر قادر ہو سکتی تھی۔ لیکن ان کا انتظام نہیں تھا اور نہ ہی اس کے متعلق سوچا گیا تھا۔
لہٰذا پیچھے ہٹتے وقت قبائلیوں کے پاس ایسی کوئی نہیں تھی جہاں وہ اپنی بسوں کو روڑ پر محفوظ طریقے سے چھوڑ سکیں اور جہاں آگے بڑھنے والی بھارتی فوج پر حملہ کے لئے پہاڑیوں میں جا چھپیں اور اگر وہ لڑنے کے لئے پہاڑوں میں نہیں گئے تو اپنے بسوں میں بیٹھ کر انتظار کرنے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ ان کا مقصد کشمیر چھوڑنا نہیں تھا، لیکن آرام سے و ہ کہیں اور مزید انتظار کر سکتے تھے۔
وہ پاکستان کی وجہ سے مایوسی محسوس کرتے تھے۔ اپنی آزاد خیالی میں وہ کشمیر آنے اور لڑنے کو راضی ہو چکے تھے لیکن صرف ریاستی فوج کے خلاف اس سلسلے میں انہوں نے توقعات سے زیادہ کیا۔ لیکن کسی نے بھارتی فوج کے خلاف لڑنے کےلئے توپوں، ٹینکوں اور طیاروں کا انتظام نہیں کیا تھا۔

تبھی انہوں نے لمحہ بھر کےلئے بھی نئے دستے کے خلاف جنگ لڑنے میں پس و پیش نہیں کیا تھا اور جلد ہی انہیں مزید کامیابی بھی مل گئی تھی۔ لیکن فطری طور پر انہیں امید تھی کہ اس بدلتے ماحول میں پاک آرمی ان کی مدد کےلئے آ رہی ہوگی اور جلد ہی انہیں یہ جان کر اچنبھا ہوا کہ کوئی فوج، توپ یا طیارہ ان کی مدد کےلئے نہیں آرہا ہے۔ بلا شبہ اپنے پیچھے محفوظ بیس کی طرح کسی چیز کی سب سے زیادہ بنیادی ضرورت بھی انہیں مہیا نہیں کی گئی تھی۔
چنانچہ 5نومبر کی شب تک لشکر کا بہت بڑا حصہ سرینگر سے 65 میل اور بارہمولہ سے 30 میل دور اڑی کی طرف انخلاءکر چکا تھا اور حالت اب بھی مختلف نہیں تھی اور اگلے دن چھوٹی ٹکڑیاں کشمیر کے باہر انخلاءکرنا شروع ہو گئیں۔ جب 7نومبر 1947کی شام کو پنڈی چھوڑ کر آیا تو وہاں یہ حالت تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.