یو پی ایس سی نتائج

یو پی ایس سی نتائج

جموں کشمیر میں جاری جی ٹونٹی اجلاس سے جہاں عام لوگ خوش نظر آرہے ہیں، وہیں عوامی حلقوں میں اُس وقت خوشیوںکا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، جب پو پی ایس سی امتحانی نتائج سامنے آگئے ،جن میں جموں کشمیر کے لگ بھگ15 اُمید وار کامیاب قرار دیئے گئے جن میں وسیم بٹ نامی اننت ناگ کا ایک نوجوان بھی شامل ہیں، جوپورے ملک میں ساتویں نمبر پر ہیں۔جموں کشمیر پورے ملک میں سب سے کمزور ،پسماندہ اور پہاڑی علاقہ مانا جاتا ہے جہاں چند برس پہلے تک عام بچوں کی معیاری تعلیم کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں تھا نہ ہی کوچنگ سینٹروں کا چلن یا رواج تھا۔چند برسوں سے نہ صرف سیاسی حالات میں نمایاں تبدیلیاں آچکی ہیں بلکہ تعلیمی نظام میں بھی بہت حد تک سدھار آنے لگا ہے۔

اب جموں کشمیر خاصکر وادی کے بچے بھی ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں ۔اب ملکی سطح پر لئے جانے والے امتحانات میں وادی کے بچے بھی بازی مار لےتے ہیں جو کہ ایک اچھی بات تصور کی جاتی ہے۔اب وادی میں بھی اچھی یونیورسیٹیاں کھل چکی ہیں۔ انجینئرنگ کالج تعمیر ہو رہے ہیں، جگہ جگہ کوچنگ سینٹر موجود ہیں، جو جدید ساز وسامان سے لیس ہیں۔ جہاں بچے آرام سے پڑھ لکھ سکتے ہیں اور تجروبے کرسکتے ہیں ۔علم ہی ایک ایسا نور ہے جس کی بدولت چاروں طرف روشنی پھیل جاتی ہے اور سماج میں نمایاں تبدیلیاں آجاتی ہیں۔وادی کے بچے گزشتہ تین دہائیوں سے جن حالات سے گذرچکے ہیں، اُن میں ہرگز یہ ممکن نہ تھا کہ اس خطے سے وابستہ بچے اپنی ذہانت ،قابلیت اور ہُنر کو منظر عام پر لا سکیں۔اب چونکہ حالات میں نمایاں تبدیلی آچکی ہے، اب بچے بھی پڑھائی کی طرف دھیان دے رہے ہیںاور اپنی قابلیت،ذہانت اور صلاحیتوں کو پورے ملک کے سامنے رکھتے ہیں جس کی مثال کل آچکے یوپی ایس سی نتائجہیں جن میں وادی کے بعض بچوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔

اس سے قبل بھی اس وادی کے بچوں نے اپنا نام روشن کیا لیکن جس تعدادمیں آج وادی کے بچے بڑی تیزی کے ساتھ مختلف شعبوں میں کامیابی کے جھنڈے گارڈ رہےہیں وہ واقعی قابل تعریف ہے۔وادی کے اُن بچوں کے لئے وسیم بٹ ایک نقشہ راہ بن سکتا ہے جو پڑھائی۔لکھائی کی جانب کم دھیان دیتے ہیں اور ٹی وی ،سوشل میڈیا،ڈرگ اور دیگر خرافات کی دلدل میں پھنس کر اپنا وقت اور والدین کا پیسہ ضائع کر دیتے ہیں۔وسیم بٹ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اُن کا بچہ صرف تعلیم و تربیت میں مصروف رہتا تھا وہ نہ ٹی وی دیکھتا تھا اور نہسوشل میڈیا چلاتا تھا نہ ہی کسی بُری عادت میں مُبتلاءتھا۔وہ صرف پڑھائی میں محو ہ رہتا تھا۔لیکن پھر بھی تعلیم حاصل کرنے کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

انتظامیہ کی بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اسکولوں،کالجوں ،یونیورسیٹیوں اور دیگر تربیت گاہوں کے اندر ایساساز وسامان ،کتابیں اور درکار ضرورتیں بچوں کے لئے میسر رکھیں اور ساز وسامان کو استعمال میں لانے والے اساتذہ تعینات کریں جو اعلیٰ تعلیم ےافتہ اور بھر پور مہارت رکھنے والے ہوں کیونکہ گزشتی تین دہائیوں کے دوران ایسے اساتذہ سرکاری سطح پر بھر تی ہوئے ہیں، جو ناقابل اور نا اہل ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ بہت سارے اساتذہ کی ڈگریاں بھی فرضی ہیں، تو بیجا نہ ہو گا۔بہر حال بچوں کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کا بھی اس حوالے سے اہم رول بنتا ہے ،جس کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.