آم رے آم گھٹلیوں کے دام،یہ محورہ آج کل وادی کے بازاروں میں کافی مماثلت رکھتاہے۔دکاندار اور ریڑھی والے ،دن بھر اسی طرح کے محورے پکار کر بے چارے خریدار کو حلال کرتے ہیں۔رمضان المبارک کے متبرک ایام چل رہے ہیں اور ہر مسلمان امیر ہو یا غریب اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ نہ کچھ بازار سے خرید کرگھر لے جائے ۔میوہ ،سبزی ،گوشت،آنچار،کھجور اوردیگر ضروریاد ت زندگی خریدنے کے لئے ایک مخصوص بجٹ اس ماہ مبارک کے لئے رکھتے ہیں، تاکہ سحری اور افطاری کے وقت بہتر ڈھنگ سے کھا پی سکیں، لےکن رمضان کے چند دن باد ہی وہ افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ اب مختص رقم ختم ہو چکی ہے۔
جب ایک خدا کے بندے سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے لمبی سانس لےتے ہوئے کہا بھائی جان اس شہر کے جو ےہ پھل بیچنے والے حضرات اور قصاب صاحبان ہیں ،جب ان کے پاس بندہ کچھ خرےدنے کےلئے جاتا ہے تو وہ لوگ ایک کلو کی بجائے خود ہی دو کلو رکھ لےتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی نہیں ،پیسے رہنے دو، کل دیجئے گا ،وغیرہ وغیرہ۔جہاں تک وزن اور قیمت کا تعلق ہے ،اس میں بھی من مرضی کے مطابق چلتے ہےں اور کہتے ہیں آم رے آم گھٹلیوں کے دام۔پھر بندہ مجبور ہو کے کچھ نہیں کہہ سکتا ہے اور صرف اندر ہی اندر افسوس کرتا ہے اور کہتا ہے میرا بجٹ عید سے پہلے ختم ہوا۔





