ہم کہاں جارہے ہیں

ہم کہاں جارہے ہیں

اہل وادی کیلئے ایسے واقعات کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ اب اپنے ہی بچے والدین کا سرعام قتل کرتے ہیں ، یہ واقعات اُس وادی میں ہورہے ہیں جو کسی زمانے میں شرافت ، صداقت اور انسانیت میں اول نمبر پر ہوتی تھی ، جہاں چوہا مارا بھی گنا ہ عظیم تصور کیاجارہا تھا ، جہاں مرغاحلال کرنے کیلئے پورے محلے کے چکر کاٹنے پڑتے تھے ، اب اس وادی میں کھلے عام قتل وغارت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ہوئے پُر تشدد اور انسانیت سوز واقعات نے اب اہل وادی کے دل بدل دیئے ہیں ، جہاں روز سڑکوں ، چوہراہوں اور بازاروں میں لاشیں اٹھانی پڑتی تھیں ۔ گذشتہ روز شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور میں اپنے ہی جوان لڑکے نے اپنی اُس ماں کا گلا گونٹ کر قتل کیا جس ماں نے اس نوجوان کو 9ماہ تک اپنے کوک میں رکھا اور پال پوس کر جوانی کی اس دہلیز تک پہنچا دیا ۔ اس سے افسوسناک اور شرمناک واقعہ اب کیا ہے جو دیکھنا اہل وادی کو باقی رہا ۔گذشتہ روز ہی کپوارہ ضلع میں ایک 9سالہ بچی کا گلا کاٹ کر قتل کیاگیا اور لاش ایک شیڈ میں رکھی گئی تھی ۔عوامی حلقوں میں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہورہا ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے کہ کشمیری سماج کا تانا بانا بکھر رہا ہے ۔

کشمیری معاشرہ اپنے اداب ، حسن سلوک اور مہمان نوازی کیلئے پورے عالم میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور اس وادی میں ایسے واقعات کا رونما ہونا سماجی ناکامی تصور کی جاسکتی ہے کیونکہ معاشرہ جس تیزی کےساتھ جرائم وتباہی کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے ، وہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ عوامی حلقوں میں یہ بھی تاثر عام پایا جارہا ہے کہ وادی کشمیر میں منشیات کی وباءکے نتیجے میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ نشیلی چیزیں کہاں سے سپلائی ہورہی ہیں اور کون ان کو گھر گھر تک پہنچانے کا کام انجام دے رہا ہے ۔ ہم ہر گز اپنی غلطی کسی کے سر تھوپ نہیں سکتے نہ ہی ہم واقعات کو بیرونی سازش سے تعبیر کرسکتے ہیں۔کیونکہ قاتل بھی کشمیری ہے اور مقتول بھی ، ڈرگ سپلائی کرنا والا بھی وادی کا ہی رہنا والا ہے اور ڈرگ استعمال کرنے والا بھی ۔ ہم کہاں جارہا ہے ؟۔ اپنے اُن اسلاف کو روز محشرمیں ہم کون سا منہ دکھائیں گے جنہوں نے اپنا آرام حرام کرکے دن رات یہاں کے لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں شرافت ، سادگی ، انسانیت اور روحانیت کا سبق سکھایا تھا اور وہ تعلیمات فراہم کی تھیں جن کی بدولت وادی کشمیر کا نام روشن اور تابناک تھا ۔اگر واقعی ہمیں ایک بار پھر اس وادی کو اس ڈگر پر واپس لے جانا ہے تو پھر ہمیں مل جل کر ایسے حالات کو قابو کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوںگی اور بغیر کسی ملت ومذہب اور فرقہ کے سامنے آنا چاہئے اور گھر گھر جاکر ڈرگ مافیا کےخلاف تحریک شروع کرنی چاہئے تاکہ ایسے دلدوز واقعات سے نجات مل سکے جو روز سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.