شوکت ساحل
بلا کوئی اس بات سے کون انکار کیسے کرسکتا ہے کہ نوجوان نسل ہی مستقبل کی ضمانت ہے ۔بے شک ! نوجوان نسل ہر ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہے اور ہوتی بھی ہے۔
تعلیم یافتہ، باصلاحیت، ہنرمند، محنتی اور مضبوط اخلاقی اقدار کا حامل نوجوان طبقہ کسی بھی ملک کی بقا اور تعمیرو ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن ملک و قوم کے لیے سرمایہ افتخار اور روشن مستقبل کی ضمانت بننے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل نہ صرف اپنی اہمیت سے آگاہ ہو،بلکہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی کرے۔مثلاً والدین، اساتذہ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں، ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہو۔
اپنی تعلیمی سرگرمیوں(دینی و دنیاوی)پر بھرپور توجہ مرکوز رکھے، علم کا اصل مفہوم سمجھے اور ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے کھیلوں کے میدان آباد کرے۔
ماضی میں زیادہ تر اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز یا دیگر تدریسی مراکز کے طلبہ فارغ اوقات میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، بیڈمنٹن اوروالی بال جیسے کھیلوں کو ترجیح دیتے تھے، مگر اب جوں جوں ہم جدید ٹیکنالوجی سے متعارف ہورہے ہیں، نوجوانوں کی مصروفیات اور ترجیحات میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں۔
عصرِحاضر کے زیادہ تر نوجوان فارغ اوقات میں انٹرنیٹ پر مختلف گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں۔اعتراض گیمز پر نہیں، بلکہ اصل مسئلہ ان کی نوعیت کا ہے کہ بیش تر گیمز ایسے ہیں، جو نہ صرف نوجوانوں کی اخلاقیات تباہ کرنے کا موجب بنتے ہیں، بلکہ ان کی ذہنی استعداد متاثر کر کے انہیں نفسیاتی مسائل میں بھی مبتلا کردیتے ہیں۔
بیش تر نوجوان جس طرح کے گیمز کو ترجیح دے رہے ہیں، ان پر کسی طرح کا”چیک اینڈ بیلنس“ رکھنا ممکن نہیں۔
والدین سمجھتے ہیں کہ شاید تعلیمی مصروفیات بڑھ گئی ہیں، جب کہ حقیقت برعکس ہوتی ہے۔جب سے موبائل فونز میں تِھری جی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے اور سیلفیز لینے کا رواج عام ہوا ہے، نسلِ نو کچھ زیادہ ہی بے باک اور آزاد خیال ہوگئی ہے۔
مغربی ممالک سے سیلفی نامی وبا جب ایشیائی ممالک میں داخل ہوئی، تو دن بدن خطرناک صورتِ حال اختیار کرتی چلی گئی۔ منفرد انداز اپنانے کے شوق میں بہت سے نوجوان اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ وہ منفی رجحانات ہیں، جن کی وجہ سے نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہورہی ہیں۔لہٰذا والدین، اساتذہ کرام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا کو مل جل کر، ایک دوسرے کے تعاون سے ایک ایسی مہم کا آغاز کرنا چاہیے، جس سے نوجوانوں کی اکثریت کو درست راہِ عمل اختیار کرنے میں مدد مل سکے اور نسلِ نو کی طاقت و قوت کو مثبت طور پر استعمال میں لایا جاسکے۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔