ہم اور ہماری ذمہ داری ۔۔۔

ہم اور ہماری ذمہ داری ۔۔۔


شوکت ساحل

قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔کیونکہ انسان اور باقی تمام مخلوقات میں واضح فرق فہم و فراست کا ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا میں کم و بیش18 ہزار مخلوقات ہیں ان میں سے انسان کو سب سے افضل بنایا گیا ہے۔

انسان کو اشرف المخلوقات (سب مخلوقات میں سب سے اعلی) کہا گیا ہے۔ انسان کو دنیا میں بھیج کر اللہ پاک نے فرشتوں سے کہا میں نے روح زمین پے اپنا خلیفہ بھیجا ہے اور پھر اللہ پاک نے فرشتوں سے انسان کو سجدہ کرایا۔

وہ انسان آج اللہ پاک کے ہر حکم ہر بات کا انکار کر رہا ہے، جو انسان ایک سانس کا بھی محتاج ہے ایک سانس اندر لے تو اس کو یقین نہیں وہ باہر نکال سکے گا یا نہیں یوں تو جانوروں کو دیکھا جائے تو وہ بھی کھاتے ہیں ، پیتے ہیں اور سوتے ہیں مگر فرق شعور کا ہے وہ شعور جو انسان کے پاس موجود ہے۔

ہم آج اگر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نظر ڈالیں اور بطور مسلمان اپنے رویوں کا جائزہ لیں تو ہمیں سخت شرمندگی ہوگی ۔

کیوں کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم دوسروں کے لیے آسانیاں نہیں، مشکلات پیدا کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔

ہمارا یہ رویہ گھر، محلے، بازار، دفاتر،عوامی مقامات، تعلیمی اداروں بلکہ ہر جگہ پر اور ہر سطح پر نظر آرہا ہوتا ہے۔

ہم یہ کام کسی بھی وقت کرلیتے ہیں اور پھر اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو اپنے ایسے کاموں پر جن سے دوسروں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، فخر بھی کرتے ہیں۔

ہم سڑک پر ہوں اور ٹریفک کی سرخ لائٹ روشن ہوجائے توہم آگے نکلنے کی دوڑ میں قوانین وضوابط کو پیروں تلے روند ڈلاتے ہیں ۔

دوسری طرف خود راہ گیروں کا یہ حال ہے کہ وہ خالی فٹ پاتھ چھوڑ کر سڑک پر خراماں خراماں چلے جا رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے نوجوان موٹر سائیکلیں چلاتے ہوئے اس طرح کی آوازیں نکال رہے ہوتے ہیں جنہیں سن کر بوڑھے اور کمزور دل افراد بری طرح پریشان ہوتے ہیں۔

ہم پبلک پارکوں میں پھل اور کھانے پینے کی دوسری اشیا لے کر جاتے ہیں لیکن پھلوں کے چھلکے اور بچی ہوئی چیزیں قریبی کوڑے دان میں نہیں ڈالتے، بلکہ انہیں کسی کونے میں رکھ دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔

ہم یہ اہتمام کرتے ہیں کہ پوری پارک میں ہمارے کھائے ہوئے کیلوں، گنڈیریوں اور مالٹوں کے چھلکے اور مرغی اور گوشت کی ہڈیاں بکھری نظر آئیں، اس سے شاید ہماری کسی انا کی تسکین تو ہوتی ہو لیکن ہمارا یہ رویہ پارک میں آنے والے دیگر لوگوں، خصوصاً صفائی کے عملے کے لیے تکلیف اور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔

ہم اپنے منفی رویہ سے جھیل ڈل جیسی قدرتی آب گاہوں کو تباہ کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ہم اپنے اپنے گھروں میں بلا روک ٹوک پانی کی موٹریں چلاتے ہیں،بہت سے بلب اور پنکھے بلا وجہ گھنٹوں چلاتے ہیں مگر کبھی نہیں سوچتے کہ پانی اور بجلی کے اس ضیاع کے باعث کتنے ہی گھر ان نعمتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

ہم شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں کھانا ضائع کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پہلے ہوس کی وجہ سے” ترامیاں“ اٹا اٹ بھر لیتے ہیں، پھر آدھے سے بھی زیادہ کھانا اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارا یہ عمل ہمارے میزبان کے لیے مالی نقصان اور ذہنی تکلیف کا باعث ہے اور اگر ہم تھوڑا سا احساس کرلیں تو یہ کھانا کسی ضرورت مند کے پیٹ میں جاسکتا ہے۔

ہم اسپتالوں میں بھی گندگی پھیلانے کے مرتکب ہوجاتے ہیں ۔بیت الخلاءمیں بچا کھانا ڈالتے ہیں اور بیماریوں کو پھیلانے کے ہی مرتکب ہوجاتے ہیں ۔گاڑی پارک کرتے ہوئے راہ گیروں اور دوسری گاڑیوں کا خیال نہیں کرتے جنہیں ہماری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔

یہ فہرست لمبی ہے ،لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہمارے ان سرکاری ملازمین کا ہوتا ہے جو سالہا سال تک اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کے پنشن یا سینئر سٹیزن پنشن کے کاغذات میں غیر ضروری تاخیر کر کے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو شدید تکلیف اور اذیت پہنچاتے ہیں۔ہمیں اپنے رویہ میں تبدیلی لانی ہوگی ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.