انسانی زندگی کاہمیشہ یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ یعنی انسان اپنی آرام دہ زندگی گذارنے کیلئے نت نئے اور حیرت انگیز ایجادات کرتا رہتا ہے ۔
پتھر کے زمانے سے لیکر آج تک ہر شعبے میں نمایاں ترقی ہوئی ہے لیکن اس ترقی کے باوجود انسان نے اپنی خوشحالی اور تسکین روح کھو دی ہے ۔
بڑے بڑے ماہرین کا کہنا غم اور خوشی انسان کی فطرت میں بسا ہو اہے، اب انسان پر دار ومدار ہے کہ وہ کس چیز کو اپنے لئے راہ عمل یا نقشہ راہ بناتا ہے ۔
موجودہ دور چونکہ ترقی کا دور مانا جاتا ہے لیکن پھر بھی 95فیصد لوگ نہ جانے کیوں خوشحالی اور تسکین روح سے کوسوں دور ہیں ۔
اصل میں انسان کا ڈھانچہ دوچیزوں کاماخذ ہے ،ایک جسم اور دوسرا روح ۔جس طرح انسانی جسم کو طاقتور اور مضبوط بنانے کیلئے کھانا ،پینا لازمی ہے ،جس کی بدولت جسم کوحرارت اور قوت ملتی ہے ،اسی لئے روح کیلئے بھی الگ غذا ہوتی ہے جس سے روح کو تسکین مل جاتی ہے ۔
روح کی غذاءکا جہاں تک تعلق ہے یہ مال وجائیداد یا روپے پیسے سے نہیں خریداجا سکتا ہے بلکہ اس کیلئے عمل وفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب ہم دنیا کی بڑی بڑی شخصیات پر نظر ڈالتے ہیں وہ دنیاکے باقی لوگوں سے کمزور اور لاغرتھے لیکن پھر بھی انہوں نے وہ مقام اور مرتبہ حاصل کیا کہ مرنے کے بعد بھی انہیں لوگ یا دکرتے ہیں بلکہ اُ ن کے نقش وقدم پر چلنے کو کوشش بھی کرتے ہیں ،آخر کیوں؟شاید اسی لئے ایسی شخصیات نے روح کے تسکین کا علم بخوبی جانا اور پہچانا ہوتا ہے، وہ دنیاﺅی مسائل ومشکلات کے باوجود بھی خوش وخرم ہوتے تھے اور دوسروں کی مدد کرتے تھے ۔
اصل میں ایسے ہی لوگ خداشناس مانے جاتے ہیں، اُن لوگوں نے موت اور زندگی کا اصل فلسفہ سمجھ لیا ہوتا ہے ۔
وہ مختلف کام انجام دیکر ،مختلف طریقوں سے روح کو تسکین بخشنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ،غالباً یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کونماز اور روزہ کی ترغیب دی گئی ہے اور ہندوں کو میڈٹیشن اور برتھ رکھنے کاطریقہ دیا گیا ہے جبکہ بودھ ،عیسائی اور سکھوں کےساتھ ساتھ باقی مذاہب کے لوگوں کو بھی اپنی اپنی تعلیم وتربیت کے مطابق یہ فلسفہ سامنے رکھا گیا ہے لیکن بہت کم لوگ ان تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سب کچھ دستیاب ہونے کے باوجود ہم خوش نہیں بلکہ پریشا ن اور غیر مطمئن رہتے ہیں ۔