ان کاریگروں کی مصروفیات کی خاص وجہ یہ ہے کہ انہیں حسب معمول ملک و بیرون ملک سے ملنے والے آرڈرز مذکورہ تہوار سے قبل ہی مکمل کرکے بیوپاریوں اور خریداروں تک پہنچانے ہیں۔

پیپر ماشی کا شمار نہ صرف وادی کشمیر کی قدیم ترین بلکہ مشہور ترین دستکاریوں میں ہوتا ہے اور یہ دستکاری بھی نہ صرف ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک موثر وسیلہ ہے بلکہ وادی کشمیر کے شاندار تہذیب و تمدن کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔
تاہم اس سے جڑے کاریگروں کا شکوہ ہے کہ جموں وکشمیر کی کوئی بھی حکومت اس صنعت کے فروغ اور استحکام کے لئے فکر مند نہیں رہی ہے۔
سری نگر کے لال بازار سے تعلق رکھنے والے محمد مقبول جان نامی ایک کاریگر نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ یوں تو سال بھر ہمیں آرڈرز ملتے رہتے ہیں لیکن کرسمس تہوار کے پیش نظر آرڈرز زیادہ ہی ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا: ’کورونا کی وجہ سے ہمیں بھی پریشانی ہوئی تھی بصورت دیگر کرسمس کے آرڈرز ہمیں ہر سال بہتات میں ملتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرون ممالک سے بھی آرڈرز ملتے ہیں جو تہوار سے چھ ماہ، آٹھ ماہ قبل ملتے ہیں اور پھر ہم ان کو مکمل کرنے میں لگ جاتے ہیں‘۔
موصوف کاریگر نے کہا کہ کرسمس تہوار کے لئے وادی کے تمام کاریگروں نے تیاری کی ہوتی ہے اور ان تیاریوں کا انحصار آرڈرز پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا: ’مختلف ممالک کے مختلف ڈیزائیوں کی مصنوعات کے آرڈرز ملتے ہیں جن کی تیاریوں میں کاریگر آج کل زیادہ ہی مصروف ہیں‘۔

محمد مقبول کا کہنا ہے کہ ہمارے کارخانوں میں سال بھر کام رہتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف کرسمس کے لئے مصنوعات تیار کر تے ہیں۔انہوں نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس پیشے میں روزی روٹی کمانے کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن اس کو وسعت دینے اور نئے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے‘۔ان کا کہنا تھا: ’وادی کشمیر کی شان اس کی دستکاریاں ہیں ان ہی پر یہاں کے لوگوں کی روزی روٹی منحصر رہی ہے لیکن اس کو کہیں درج ہی نہیں کیا گیا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ جو پیپر ماشی، ووڈ کاروونگ کے ماہرین تھے ان کو نظر انداز کیا گیا۔

موصوف کاریگر نے کہا کہ فائن آرٹ کی ڈگری حاصل کی جاتی ہے لیکن اس اہم اور روایتی آرٹ کی کوئی ڈگری ہے نہ کہیں اس کو نئی پود تک پہنچانے کے لئے سرکاری سطح پر کوئی بندوبست ہے۔انہوں نے کہا: ’اس آرٹ، چاہئے وہ پیپر ماشی ہے یا ووڈ کاروونگ یا کوئی دوسرا آرٹ کو بھی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ پڑھایا جانا چاہئے تھا جو ہمارے بزرگ ماہر کاریگر تھے ان سے سرکاری سطح پر کوئی استفادہ نہیں کیا گیا‘۔ان کا کہنا تھا: ’ایک کاریگر کو صرف ایک لاکھ روپیہ بینک قرضہ فراہم کرنا دستکاری کو زندہ رکھنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے دوام کے لئے ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے‘۔
محمد مقبول نے کہا کہ نئی پود تک اس کو پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو سرکاری سطح پر سپورٹ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ نصاب کی کتابوں میں اس کا ذکر ہونا چاہئے طلبا کو اس کی طرف مائل کرنے کے لئے اقدام ہونے چاہئے۔ان کا کہنا تھا: ’پیپر ماشی سے ہزاروں لوگوں کو آج کے دور میں بھی روز گار مل سکتا ہے لیکن اس کے لئے سرکار کو متوجہ ہونا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ پیپر ماشی یا کوئی دوسری دستکاری ہمارے لئے روزگار کا ہی وسیلہ نہیں ہے بلکہ ہماری پہچان اور ہمارے بزرگوں جیسے حضرت میر سید علی ہمدانی (رح) کا ایک تحفہ ہے جس کو زندہ رکھنا ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے۔
موصوف کاریگر کا کہنا ہے کہ ہماری نئی نسل دنیا کے موجدین کو جانتی ہے لیکن اپنے کاریگروں جن کے فن پارے دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں، سے نابلد ہیں۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ پیپر ماشی کی دستکاری کی طرف متوجہ ہوکر اس کے دوام اور فروغ کے لئے ایک موثر پالیسی بنائیں۔ان کا کہنا تھا: ’میرے گھر کے تمام افراد اس سے پیشے سے وابستہ ہیں اسی پر میرے گھر کا چولھا جلتا ہے‘۔
ان ماننا ہے کہ ایک کریگر جس قدر محنت، لگن اور ایمانداری سے اپنے کارخانے میں کام کرے گا اسی قدر برکت اور خوشحالی بھی اس کا مقدر بن جائے گی۔