وادی میں آج کل شادیوں کا سیزن جاری ہے اور ہر جانب شادیوں میں شرکت کرنے والے مہمانوں کی قطاریں نظر آرہی ہیں ۔اب سیزن جموں میں بھی شروع ہونے والا ہے ۔
چونکہ شادی کرنا ایک لازمی عمل ہے ،اس راستے سے گزرنا ہر ایک مرد وعورت کیلئے ضروری ہے۔
تاکہ ان کی زندگی صاف وپاک طریقے سے گذرے اور ان کے ذہنوں میں شیطانیت کا عمل دخل نہ ہوسکے ۔کیونکہ کہا جارہا ہے کہ شادی اور صفائی نصف ایمان ہے ۔
بہرحال ہم جس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں وہ ہے فضول خرچی اور شادی بیاں کی تقریبات کے دوران دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچانا ، اکثر شادیوں میں حد سے زیادہ فضول خرچی کی جارہی ہے۔
نئے نئے رسم ورواج متارف کئے جارہے ہیں ،طرح طرح کے پکوان مہمانوں کیلئے تیار کئے جاتےہیں جبکہ سامنے لاتے ہی مہمان حضرات لفافوں میں یہ پکوان جمع کرکے لے جاتے ہیں۔
مہمانوں کیلئے جوس، خشک میوہ اور طرح طرح کی مٹھایاں قیمتی ڈبوں میں سجا کر دستر خوان کی زینت بنائی جاتی ہیں ۔
اس عمل سے جہاں مالکان کو بھی نقصان ہورہا ہے ، وہاں مہمان بھی بیمار ہوجاتے ہیں ۔ گھنٹوں تک کھانہ کھانے کیلئے انتظار کرنا پڑھ رہا ہے ۔
اکثر شادیوں میں برات دیر گئےرات آتی ہے اور اس دوران پٹاخے بھی سر کئے جاتے ہیں جسکی وجہ سے آس پاس کے مکین خوف زدہ ہوجاتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ شاید فائرنگ ہورہی ہے ۔
اسی طرح مہندی رات کو لاﺅڈ اسپیکر لگاکر زور زور سے گانے بجائے جاتے ہیں او راس طرح گھروں میں موجود بزرگوں خاصکر بیماریوں کو تکلیف پہنچ جاتی ہے ۔حکومت اور انتظامیہ مسجدوں اور مندروں میں لاﺅڈ اسپیکروں پر پابندی عائد کررہی ہے ۔
دوسری جانب شادی بیاں کی تقریبات کے دوران بنا کسی رکاوٹ کے بے شمار پٹاخے سر کئے جاتے ہیں اور زور دار آواز میں گانے بجائے جاتے ہیں جبکہ ان دونوں چیزوں سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، بلکہ عام لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
انتظامیہ کو اس حوالے سے نہایت ہی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور ایسے معاملات پر پابندی عائد کرنی چا ہیے، تاکہ ماحول بھی صاف وپاک بن سکے اور لوگوں کو راحت وسکون میسر ہوسکے ۔