توبہ رے توبہ آج کل ریڈیو ایف ایم اور دیگر ٹی وی چینلوں پر اس طرح کے تیز طرار گانے سنائے جاتے ہیں کہ سننے والا دھنگ ہوکے رہ جاتا ہے۔
کیونکہ لگتا ہے کہ گانا گانے والے لوگوں نے بھنگ پی کے رکھی ہوئی ہے ، سننے والے کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کیونکہ سننے کے بعد لگتا ہے کہ اردو زبان نہیں بلکہ ہانگ کانگ کی بولی ہے ۔
گیت کے نہ معنی سمجھ آتے ہیں نہ ہی سنگیت کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ یہ ہندوستانی ہے یا فرنگی ۔
کہاں وہ پرانے ایام کے صدا بہار گیت ، جن کو سن کر عام انسان کا دل ودماغ اور روح تازہ ہوتی تھی ۔ سننے والے کی رگ رگ میں یہ گیت اور سنگیت پیوست ہوتے تھے ۔ دہائیوں قبل گائے ہوئے گیت آج بھی سننے والے کو محظوظ کرتے ہیں ۔
مگر آج کے نوجوان ان ہی گیتوں میں مست ومگن ہوکر شراب اور بھنگ پیتے ہیں اور اپنے بال بھی فرنگی طرز پر کاٹتے ہیں ۔
کسی کے سرپر تاج اور کسی کے سرپر داج اور کسی کے سر پر فرنگی زبان پر نہ جانے کیا کیا لکھا ہوتا ہے اور راہل جہلم کے کنارے یہ سب کچھ دیکھ کر صرف اپنے دانتوں تلے انگلی دباتا ہے ۔