روحانی مرض ۔۔۔۔

روحانی مرض ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

وادی کشمیر میں ماہ مئی میں شادی بیاہ کا سیزن شروع ہوتا ہے ۔شہری علاقوں میں یہ سیزن اکتوبر اور دیہی علاقوں میں یہ نومبر کے آخر تک جاری رہتا ہے ۔

ایک دہائی قبل شادی بیاہ کی تقاریب گھر کی چاردیواری تک محدود رہتی تھیں اور اگر کسی کے پاس مہمانوں کے لئے جگہ نہیں ہوتی تھی تو شامیانہ لگایا جاتا تھا ،یا پھر کسی ہمسایہ کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ۔

لیکن اب فیشن کی دوڑ میں شادی ہالز نے جگہ لے لی ۔شادی ہالز کا قیام اُن علاقوں میں عمل لایا گیا ،جہاں لوگوں کو سڑک پر شامیانے لگانے پڑتے تھے ،لیکن اب یہ شادی ہالز ’کمرشل ‘ بن چکے ہیں ۔جن علاقوں میں یہ شادی ہالز قائم کئے گئے ہیں ،وہاں کے رہائشیوں کو شور وشرابے کے سوا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے ۔اُنہیں تو ان شادی ہالز میں تقاریب منعقد کرنے پر ریاعت بھی نہیں مل رہی ہے ۔

جبکہ یہ علاقہ مکین کی سہولیت کے لئے قائم یا تعمیر کئے گئے تھے ۔اب جبکہ یہ ہالز کمرشل بن چکے ہیں،ایسے میں انتظامیہ نے بھی اپنے رنگ بدل دیئے ۔

اس پر ستم ظریفی یہ کہ سرمایہ داروں نے اب شادی ہالز میں شادی بیاہ کی تقاریب منعقد کرنے کا فیشن بنا رکھا ہے ،کیوں کہ وہ اپنے سرخ قالین کو گندہ ہوا نہیں دیکھنا چاہتے ہیں ۔

اب یہ لت متوسطہ اور نچلے متوسطہ گھرانوں کو بھی لگ گئی ہے ،وہ بھی اب دکھا وے کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں ۔جب بات شادی بیاہ کی ہوتی ہے ،تو نمود ونمائش کا عنصر کا آنا ضروری اور لازمی ہے ۔کہتے ہیں ’ریاکاری یا نمود ونمائش بہت خطر ناک روحانی مرض ہے ۔

یہ بڑی نیکی کو اُسی طرح ضائع کردیتا ہے جیسے وہ کی ہی نہیں ہو ۔ ریا کاری، نام و نمود اور شہرت کا جذبہ، نہایت ہی بری عادت اور برے اخلاق و کردار میں سے ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی۔

کشمیر میں شادی بیاہ کی تقاریب کے دوران ’وازوان ‘ یعنی گوشت کے طرح طرح کے پکوانوں نے فرسودہ روایت کا دامن اتنا پھیلا دیا ہے کہ نکاح کا نام سن کر بھی انسان کانپ جاتا ہے ۔

حال میں وزارت اسٹیٹسٹکس اور پروگرام ایمپلیمنٹیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت میں غیر شادی شدہ نوجوانوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور جموں و کشمیر اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ نیشنل یوتھ پالیسی 2014 کے مطابق 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد کو نوجوانوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق غیر شادی شدہ مردوں کی آبادی میں2011 میں 20.8 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر سنہ 2019 میں 26.1 فیصد ہوگئی ہے۔ وہیں خواتین کے معاملے میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھا گیا ہے۔سنہ2019 میں نوجوانوں کی آبادی کا سب سے زیادہ فیصد حصہ جن کی شادی نہیں ہوئی وہ جموں اور کشمیر میں ہے۔

اس کے بعد اتر پردیش، دہلی اور پنجاب اور سب سے کم شرح کیرالہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش میں دیکھا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں شادی نہ کرنے والے نوجوانوں کی شرح25.3 فیصد، 2015 میں25.9 فیصد اور2019 میں 29.1 فیصد تھی۔

آج کل ٹرینڈ بن گیا ہے کہ لڑکے کے پاس سرکاری نوکری اور جائیداد ہونی چاہیے جس کے بعد شادی کی بات آگے بڑھتی ہے۔ ویسے ہی جب لڑکے والے لڑکی دیکھنے جاتے ہیں تو یہ دیکھا جاتا کہ لڑکی کتنی خوبصورت، کتنی جائیداد ساتھ لائی گی اور نوکری کرتی ہے یا نہیں۔ یہ سب چیزیں شادی کو مشکل بناتی ہیں۔شادی کی تقریبات کے وقت بھی اتنا فضول خرچ کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ جتنا خرچ کیا جاتا ہے اس سے کئی یتیم بچوں کی شادی ہو سکتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود ہم خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ،کیوں کہ رشتہ دار یا کوئی قریبی ناراض ہوجائے گا کہ شادی بیاہ میں اس نے تنگ دستی یا تنگ دامنی کا مظاہر ہ کیا ۔دنیا تو بولتی رہتی ہے ،لیکن فضول خرچی سے بچنا زندگی کو خوشحال بنا سکتا ہے ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.