کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی اور عوامی خوشحالی کا راز کاروباری دنیا میں چھپا ہوتا ہے ۔یعنی بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار ملک کی تعمیر وترقی میں نمایاں رول ادا کرتے ہیں ۔
ان ہی صنعت کاروں کی بدولت بے روزگاروں کو روزگار فراہم ہوتا ہے اور ان ہی تاجروں کی بدولت ملک کی معیشت مستحکم اور مضبوط ہو جاتی ہے ۔جہاں تک ہمارے ملک ہندوستان کا تعلق ہے یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے لوگ روزبروز کمزور اور مالی طور غیر مستحکم ہو رہے ہیں ۔
عا م لوگ روزبروز پریشان اور لاچار ہوتے جارہے ہیں ۔کوئی بھی بڑی کمپنی ہر وقت زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی طاق میں رہتی ہے لیکن یہاں کام کررہے پڑھے لکھے اور تجروبہ یافتہ افراد کا زیا دہ تر آمدنی کا حصہ بیچ میں کھڑے دلال کھا جاتے ہیں ۔
سرکاری سطح پر آج دیکھا جائے اکثر ملازمین ’اﺅٹ سورس ‘کی بنیادوں پر پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے مہیا کئے جا رہے ہیں ۔
جموں وکشمیر بینک میں تعینات ہزاروں سیکورٹی گاڑوں کا سنٹرل یونیورسٹی میں تعینات کلرکل اسٹاپ ہوں یا پھر اسپتالوں میں تعینات صفائی کرمچاری ہوں،وہ بھی پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے فراہم کئے جا رہے اور اس طرح ان کی اصل تنخواہوں کا نصف حصہ یہ دلال کھا رہے ہیں ۔سرکاری اداروں میں کام کررہے ملازمین ہویا گھروں میں کام کررہے نوکرہوں یہ بھی اب مختلف پرائیویٹ کمپنیوںسے فراہم کئے جا رہں۔
اسطرح کمیشن کے نام پر کروڑوں روپے کمپنیوں اور سرکاری وغیر سرکاری ادارو ں سے ہو رہے ہیں اور ان لوگوں کا استحصال کیا جا رہا ہے جو لوگ کافی زیادہ محنت ومشقت کرتے ہیں ۔کوئی بھی پرائیویٹ کمپنی صرف اپنے منافع کو مدنظر رکھتی ہے ۔
باقی ان کے ہاں کام کررہے ہیں۔ملازمین کے خون پسینے کی کمائی کون کھا رہا ہے؟ اسے کہیں کوئی لینادینا نہیں ہے ۔
وزیر اعظم شری نریندرا مودی نے ملک کو خود کفیل بنانے اور عام لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچانے کیلئے مختلف اسکیمیں متعارف کی ہیں، لیکن شاید انہیں اس جانب توجہ نہیں ہے کہ اُن کی سرکار میں کمیشن کے نام پر اربوں روپے مختلف لوگ کھا رہے ہیں ۔
اگر واقعی سرکار غریب عوام کو ترقی کی راہ پر چلتا دیکھنا چا ہتی ہے، تو پھر انہیں اس طرح کے ’اوٹ سورس‘ ملازمین کی پالیسی ختم کرنی چاہیے اور براہ راست سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کررہے ملازمین کومستقل کرنا چاہیے اور اسطرح درمیانہ داری کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا ۔ اگر چہ ان ملازمین کی تنخواہیں کم ہی رہے لیکن استحصال سے نجات مل جائے گی ۔