صنعتی انقلاب کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے ۔صنعتیں جس قدر معیاری اور بہتر ہوں گی، اُس قدر یہاں سے مختلف مصنوعات تیار ہوسکتی ہیں اور اندرونی اور بیرونی سطح پر اچھی خاصی آمدنی حاصل ہو جائے گی اور روزگار کے بے شمار وسیلے اسی صنعتی انقلاب سے ممکن ہو سکتے ہیں ۔
اگر ہم جموں وکشمیر کا سر سری جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جموں کی نسبت وادی میں بہت کم فیکٹریاں ہیں، اسکی کئی وجوہات ہیں ،ایک تو موسمی صورتحال ،دوسرا سڑ ک رابطے بہتر نہ ہونا ،تیسرا خام مال کی عدم دستیابی اور بہتر پاﺅر سپلائی کی عدم دستیابی قابل ذکر ہیں ۔جہاں تک وادی کو پورے ملک کےساتھ جوڑنے والی سڑک قاضی گنڈ ۔
جموں سڑک کا تعلق ہے، یہ اکثر اوقات بند رہتی ہے اب جبکہ اسکی کشادگی اور بہتری کیلئے مرکزی سرکار نے برسو ں قبل ایک منصوبہ ہاتھ میں لیا تھا، تاہم سست رفتاری سے کام ہونے کی وجہ سے ابھی بھی یہ شاہراہ مکمل طور چار لین والی نہیں بن پائی ہے ۔
جہاں تک مغل روڑ کا تعلق ہے، اسکی کشادگی بھی نہیں ہو پارہی ہے کیونکہ ملک کی سیکورٹی کے حوالے سے یہاں بہت سارے مشکلات اور خدشات پائے جاتے ہیں ۔
اب جبکہ جموں وکشمیر انتظامیہ وادی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہے ۔ تاہم جب تک بنیادی سطح پر ہر لحاظ سے کام مکمل نہیں ہو جائے گا جو کہ ایک کامیاب صنعت کیلئے لازمی ہوتا ہے، تب تک بہتر صنعت کی اُمید رکھنا بے معنی ہے ۔
گذشتہ روز جموں وکشمیر کے ایل جی نے ایک خصوصی میٹنگ میں صنعت وحرفت کے حوالے سے افسران سے جانکاری طلب کی، تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ آج تک کوئی بھی بہتر کام کرنے میں انتظامی افسران نہ صحیح رائے دیتے ہیں اور نہ ہی وہ عوامی ترقی اور خوشحالی کیلئے فکر مند ہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو یہاں ایچ ایم ٹی فیکٹری ،مختلف سرکاری جونیئری ملیں بند نہیں ہوتی۔جہاں تک پرائیویٹ صنعتی یونٹوں(کار خانوں) کا تعلق ہے وہ بھی بیمار نظر آرہے ہں ۔
اگر مرکزی سرکار واقعی صنعت وحرفت کو مضبوط کرنے اور بہتر ڈھنگ سے چلانے کیلئے فکر مندہے ، پھر سب سے پہلے پاﺅر سپلائی ،رابطہ سڑکیں اور قرضہ جات بہم رکھنے کیلئے ”سنگل ونڈو سسٹم“ قائم ہونا چاہیے، تب جا کر ترقی اور خوشحالی ممکن ہے اور بیروزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔