دُنیا بھر میںبالعموم اور وادی میں بالخصوص مساجد ،خانقاہوں اور زیارت گاہوں میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور یہاں پر موجود عالم ومجور حضرات ایسے کام انجا م دے رہے ہیں جو ہرگز اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی انسانیت کے دائرے میں ان حرکات کی کوئی جگہ ہے ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران جموں وکشمیر خاصکر وادی میں اس قدر اسلامی تنظیمیں مختلف ناموں پر معرض وجود میں آچکی ہیں، جنہوںنے فساد کوبرپا کیا ہے ۔
40برس قبل وادی میں یاتو شیر۔ بکرا کی لڑائی ہوا کرتی تھی یا پھر شہر وگام کے نام پر لوگ تقسیم نظر آتے تھے، اسکے برعکس آج ہر گھر تقسیم نظر آرہا ہے۔ ایک ہی گھر کے افراد الگ الگ مسلک اور جماعت سے منسلک ہوتے ہیں، اس طرح نہ بیٹا باپ کےساتھ اتفاق کرتا ہے اور نہ ہی بیٹی ماں کے ساتھ ۔
جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، وہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔مساجد جنہیں امن اور عبادت کیلئے مختص رکھا گیا ہے، وہاں آج مختلف ناموں پر سیاست چلائی جاتی ہے اور ایک دوسرے کا گریبان پکڑاجاتا ہے ۔
حالیہ دنوںایک مسجد میں ایک عالم نے دوسرے عالم کے چہرے پر تھپڑ رسید کرکے سوشل میڈیا کے زریعے سے دنیا کو باور کیا کہ اسلام کی تعلیم اصل میں یہی ہے ۔کئی برس قبل ضلع گاندربل میں اسی طرح کی ایک لڑائی میں ایک نوجوان کو دن دھاڑے مسجد میں آپسی جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا ۔
کوئی ایک نام پر اپنے لئے عیش وعشرت کا سامان بہم کرتا ہے تو کوئی دوسرے نام پر اپنا الوسیدھا کردیتا ہے ۔
اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو آج وہ مسلمان نہیں رہے جو انسان کو انسان سمجھ کر عزت واحترا م کرتے تھے ۔چہ جائے کہ وہ کسی بھی مذہب سے وابستہ کیوں نہ ہو ۔
جن حالات سے امت مسلمہ گذر رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے کیونکہ ہمارے پڑھے لکھے عالم ہی اُمت کو بگاڑنے میں مصروف ِ عمل ہیں۔ جہاں تک زیارت گاہوں کا تعلق ہے یہا ں بھی صرف روپہ پیسہ جمع کیا جارہا ہے اور لوگوں کے جیب کاٹے جاتے ہیں جو بھیک مانگنے سے بھی بدتر ہے ۔
ان حالات میں فضل خدا ہی سے نجات پائی جاسکتی ہے ،نہ کہ علم ودولت سے جو آج کل فساد کی جڑ بن چکی ہے ۔