معاشرے میں منفی سوچ ۔۔۔۔۔

معاشرے میں منفی سوچ ۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

اس حقیقت سے قطعی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جس تیز رفتاری کیساتھ دنیا بھاگ رہی تھی ،اُس پر چین کے شہر ووہان سے نمودار ہونے والے مہلک وائرس نے اس قدر روک لگا دی کہ اب بھی زندگی کی گاڑی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ۔

قدرت کا قہر ہے یا وبا کی مہربانی برق رفتاری کیساتھ بھاگتی زندگی ہی تھم گئی ۔موجودہ صورت ِ حال پر رائے زنی کرنے والوں کا ماننا ہے ’زندگی ہم سے بھاگ رہی ہے اور ہم زندگی سے!۔۔۔‘اب یہ کس حد تک صحیح ہے یا غلط؟ فیصلہ آپ نے ہی کرنا ہے ۔

تاہم ہما را ماننا ہے کہ لاک ڈاﺅن ،معاشی بد حالی، غیر یقینی صورت ِ حال اور بے قابو مہنگائی نے چہار سو ’اُداسی ‘ کو ہی جنم دیا ۔لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ہم اداسی کی الجھنوں میں حالات کے سامنے خود سپردگی کرے بلکہ اہلیان وادی کو تین دہائیوں سے جاری سنگین ترین نامساعد حالات کا سامنا ہے ۔

اِن حالات میں زندگی کو کیسے جینا ہوتا ہے! ۔۔۔یہ وقت اور حالات نے ہمیں سکھا دیا ہے اور ہم سیکھ بھی چکے ہیں ۔

تاہم بدقسمتی سے ایک منفی پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ہمارا معاشرہ جس رفتار سے ترقی کررہا ہے، لوگ نہ جانے کیوں اسی رفتار سے مفاد پرستی کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

کوئی اپنے پاس اصولی موقف رکھنے کو تیا ر ہے نہ ماننے کو۔ اب اس کی وجہ تعلیم کی کمی کہیں یا شعور ِآگہی کا نہ ہونا۔ دونوں صورتوں میں خود غرضی اور مفادپرستی کا رحجان عام ہوتا جارہا ہے۔

لوگوں کے دلوں میں دکھا واپن (دیکھا ۔دیکھی)، حسد و کینہ اس قدر پرورش پانے لگا ہے کہ انسان ،انسان کو نقصان پہنچا کر تسکین محسوس کرنے لگا ہے۔

مقابلے کی اس دوڑمیں انسان اس قدر اندھا اور لالچی ہوگیا ہے کہ اپنی اہلیت اور قابلیت کو چھوڑ کر دوسرے کی اہلیت اور قابلیت پر ڈاکہ ڈالتا نظر آتا ہے جس کا مقصد صرف و صرف سامنے والے کو نیچا دکھا کر اپنے چھوٹے قد میں اضافہ کرنا ہے۔

یہی انسان جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا جس پر انعام و اکرام کی بارشیں کی علم وہنر جیسے انمول خزانے عطا کئے ۔

آ ج وہی انسان ان تمام نعمتوں کو چھوڑ کر حقیقت پسندی سے کوسوں دور جھوٹی شان کی چادر اوڑھ کر اپنے لیے تباہی کے ٹھکانے تلاش کرتا نظر آتا ہے۔

اپنے عیب زدہ دامن کو چھپانے کے لیے دوسروں کے پاک دامن پر کیچڑ اچھالنا اسے جینے کے لیے آکسیجن کا زریعہ معلوم دیتی ہیں۔

جس طرح ایک مثبت سوچ رکھنے والا چاہتا ہے کہ اسکے اردگرد موجود لوگوں کی سوچ بھی مثبت ہو، تاکہ زندگی کو اسکے اصل مقصد کے تحت گزارہ جا سکے بالکل اسی طرح ایک منفی سوچ رکھنے والا بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کے اردگرد موجود لوگوں کی سوچ بھی اس کی طرح منفی ہو تاکہ وہ تنہائی کا شکار نہ رہے اور معاشرے میں منفی سوچ کو فروغ دے کر اپنی نااہلی اور ناکامیوں کو چھپا سکے۔

صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کے طور پر پیش کر سکے۔ مثبت سوچ رکھنے والوں کے سامنے اس طرح آکھڑاہو جیسے سارا زمانہ اسی کے ساتھ کھڑا ہے۔

ہم بس اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ دکھا وا چند لمحوں کے لئے ہی آنکھوں کو اچھا لگتا ہے۔ اگر آپ اچھے ہوگئے تو آپ کے اردگرد کا ماحول خود بخود آپ کے تصور سے کئی زیادہ حسین ہوگا، لیکن یاد رکھیں سوچ کی تبدیلی ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.