شہری عوام کی ضروریات۔۔۔

شہری عوام کی ضروریات۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

گزشتہ 3دہائیوں میں سرینگرشہر بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے اور اس کے مضافاتی علاقوں میں بھی اب نئی ہاﺅسنگ کالونیاں اور سوسائٹیاں بن گئی ہیں۔

ان نئی تعمیرات میں پرتعیش عمارات، تجارتی مراکز اور جدید سہولیات شامل ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد جو تعمیرات دیکھتے ہیں، کیاوہ خاص تعمیراتی قوانین کے تحت ہوتی ہیں یا نہیں؟۔

مثال کے طور پر گھر کے باہر سڑک کتنی چوڑی ہوگی، کسی علاقے میں عوامی عمارتوں، تجارتی حصے، کار پارکننگ سبزے اور فٹ پاتھ کے لئے کتنی جگہ مختص ہوگی، ان سب معاملات کا فیصلہ ان اصولوں اور قوانین کے تحت ہوتا ہے یا نہیں؟۔

کیا ہاو¿سنگ کالنیوںمیں کم مالیت کے چھوٹے پلاٹ بھی موجود ہوتے ہیں یا نہیں ؟۔ بہت بحث و مباحثے کے بعد قوانین میں تبدیلی کی جاتی ہے،کیا یہ تبدیلیاں آبادی کے تناسب اور ضرورت کے مطابق کی جاتی ہیں یا نہیں ؟۔ کیا ان تبدیلیوں کا مقصد ’مجوزہ اصولوں اور منصوبہ بندی میں موجود خامیوں کو دور کرنا ہوتا ہے یا نہیں؟‘۔

ڈیولپمنٹ ایکٹ ، 1970 کی دفعہ3 کے تحت سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی جموں وکشمیرکی تشکیل دی گئی تھی۔ (31 اکتوبر 1970 کو نوٹیفکیشن ایس آر او518 مورخہ 31جنوری1970 کے ذریعہ نافذ کیا گیا تھا) ۔ لوکل ایریا ایس آر او 43 کے تحت 2 فروری1971 کو اس مقصد کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ نے اتھارٹی کے دائرہ اختیار کا ایک علاقہ تشکیل دیا۔ مذکورہ لوکل ایریا کا پہلا ماسٹر پلان گورنمنٹ نے منظور کیا اور مورخہ 22 نومبر1976 کو ایس آر او754 کے ذریعہ نافذکیا گیا۔

دوسرا ماسٹر پلان (2000-2021) حکومت کے ذریعہ کابینہ کے فیصلہ نمبر11/1 مورخہ 16جنوری2003 کو منظور کیا گیا اور 30 جنوری 2003 کو ایس آر او28 کے ذریعہ نافذکیا گیا۔ماسٹر پلان2035 ایک تیسری قانونی دستاویز ہے ، جس میں سری نگر میٹروپولیٹن کی منصوبہ بندی کی حد416 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر766 مربع کلومیٹر ہے۔ماسٹر پلان 2035 کو ریاستی انتظامی کونسل (ایس اے سی) نے منظوری دے دی تھی۔

سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے ”ہاﺅسنگ پروجیکٹ “ میں اس بات کا اعتراف کررہی ہے کہ طلب اور رسد میں بڑے فرق کے پیش نظر زمین کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور شہر کے باشندے خاص طور پر معاشی طور پر کمزور طبقوں ، کم آمدنی والے گروپس اور یہاں تک کہ درمیانہ آمدنی والے گروپس کھلے بازار میں زمین خریدنے سے قاصر ہیں۔اس کے علاوہ کھلی منڈی میں خریدی گئی زمین بغیر کسی بنیادی ڈھانچے جیسے سڑکیں ،نالیوں ، پانی کی فراہمی ، بجلی کے بنیادی ڈھانچے اور حفظان صحت کے غیر ترقی یافتہ ہے۔

رسد اور طلب کے فرق سے دریاﺅں اور نالہ کناروں اور دیگر سرکاری اراضی سمیت گرین بیلٹس اور آبی ذخائر پر بھی تجاوزات کھڑے ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں۔ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا یہ اعتراف کو خد شات اور تحفظات کو جنم دیتا ہے اور سوال پیدا کرتا ہے کہ شہر سرینگر میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے فیصلے کون کرتا ہے ؟۔

کیا یہ فیصلے عوامی فلاح وبہبود اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے تحت لئے جاتے ہیں ۔

نئی نئی رہائشی کالیوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کون کرتا ہے ۔بجلی ،پانی اور سڑک کی سہولیت کس طرح فراہم کی جاتی ہے ۔بے ہنگم رہائشی کالنیوں کو روکنے کے لئے شہر میں کون سے پالیسی اپنا ئی جارہی ہے ،کیا شہر میں ہر طرح کی تعمیرات ماسٹر پلان کے تحت ہوتی ہیں ۔

جواب انتظامیہ کو دینا ہوگا ۔بے ہنگم تعمیرات کو روکنے کے لئے ماسٹر پلان کی عمل آوری کو یقینی بنا نا ہوگا ۔قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اثر ورسوخ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ،جو دریائے جہلم کے کنارے بڑے بڑے شاپنگ مالز تعمیر کرتے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔غریب کی جھو نپڑی کو منہدم کرنے سے ماسٹر پلان کی عمل کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا ہے بلکہ منصوبہ بندی میں شہری عوام کی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھ کر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ ۔۔۔۔۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.