جموں و کشمیر حکومت قبائلی آبادی کی بہتری کیلئے مسلسل کوششیں کر رہی ہیں

سری نگر:جموں وکشمیر حکومت قبائلی لوگوں کے مفادات کے تحفظ بشمول ان کی زمین، تعلیم اور ان کی سماجی و اِقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے لئے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔
گذشتہ برس جموںوکشمیر حکومت نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سِنہا کے ساتھ ایک تاریخی باب رقم کیا جس نے جنگلاتی حقوق ایکٹ ( ایف آر اے )2006ءکے تحت گجر ،بکروال اور گڈی سپی برادریوں کے اِستفادہ کنند گان کو اِنفرادی اور برادری حقوق کے سر ٹیفکیٹ تقسیم کئے۔
اِس اقدام کو جموں و کشمیر میں قبائلی برادریوں کی زندگیوں کو بدلنے کی صلاحیت کے ساتھ ایک اہم قدم کے طور پر سراہا گیا۔
لیفٹیننٹ گورنر نے اِس موقعہ کو ” تاریخی “ قرار دیتے ہوئے جموںوکشمیر یوٹی میں ایکٹ کو عملانے کو ممکن بنانے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کا شکر یہ اَدا کیا اور اُنہوں نے کہا کہ یہ اقدام محروم قبائلی آبادی کے لئے بااِختیار بنانے اور خوشحالی کے یہاں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔
قبائلی برادریوں کو نہ صرف جنگلات کی زمین پر حقوق فراہم کئے گئے تھے بلکہ انہیں جنگل کی پیداوار پر بھی حقوق ملے تھے۔ حکومت، قبائلی کوآپریٹیو مارکیٹنگ ڈیولپمنٹ فیڈریشن آف اِنڈیا لمٹیڈکے ساتھ مل کر، اس جنگلاتی پیداوار کو جمع کرنے، قیمت میں اضافے، پیکیجنگ اور تقسیم کے لئے بنیادی ڈھانچہ قائم کرے گی۔
ان علاقوں میں جہاں کمیونٹی کے حقوق دیئے گئے ہیں، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے 10 کروڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں جن میں سڑکوں، بجلی کی فراہمی، آنگن واڑی مراکز وغیرہ کے کام شامل ہیں۔
کمیونٹی نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے زائد اَز 14 برس جدوجہد کی اوریہ صرف منوج سنہا کی قیادت والی اِنتظامیہ میں ممکن ہوا ہے۔سماجی کی بنیادی روح کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جنگلاتی حقوق ایکٹ (ایف آر اے) 2006 کی عمل آوری سے قبائلی برادری کو حقوق دئیے گئے۔ برابری اور ہم آہنگی جس کی رہنمائی ملک کے آئین اور پارلیمنٹ میں ہوتی ہے۔
حکومت نے قبائلی بچوں کو جدید خطوط پر تعلیم فراہم کرنے کے لئے قبائلی علاقوں میں 40 کروڑ روپے کی لاگت سے 200 سکولوں کوسمارٹ سکولوں میں تبدیل کرنے کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ سمارٹ سکولوں کے اقدام کی جدید کاری مارچ 2022 ءتک مکمل ہو جائے گی۔
لیفٹیننٹ گورنر نے جموں و کشمیر میں قبائلیوں کو تعلیمی بااختیار بنانے کے نئے دور کے تاریخی آغاز کے لئے قبائلی برادریوں
کو مبارک باد دی۔
لیفٹیننٹ گورنر نے اِس اقدام کے آغاز کے بعد کہا،”ہماری ترجیح قبائلی بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔ قبائلی اور دور دراز علاقوں میں جدید سہولیات سے آراستہ سمارٹ سکول بچوں میں سائنسی مزاج پیدا کریں گے اور انہیں مستقبل کے لئے تیار کریں گے۔ اس کے علاوہ ڈراپ آو¿ٹ کی شرح کو بھی روکیں گے۔“
جموں و کشمیر انتظامیہ قبائلی علاقوں میںسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور قبائلی برادری کے لئے ایک مضبوط تعلیمی ماحولیاتی نظام قائم کرنے کی خاطر اِجتماعی طور پر تقریباً 104 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ سمارٹ سکولوں کے علاوہ قبائلی محکمہ کے ہوسٹلوں کو جدید بنانے پر 8.50 کروڑ روپے خرچ کئے گئے اور جولائی میں 4 کروڑ روپے کی لاگت سے نئے ہوسٹل بنائے جا رہے ہیں۔
جموںوکشمیر یوٹی اِنتظامیہ نے راجوری میں دو ، اننت ناگ ، پونچھ ، کولگام اور بانڈی پورہ میں ایک ایک ایکلاویہ ماڈل سکول قائم کئے ہیں۔
قبائلی آبادی کی فلاح و بہبود کے لئے جموںوکشمیر یوٹی حکومت مالی امداد اور اقدامات کے ذریعے شیڈول ٹرائبوں کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم خلا کو پُر کرنے کے لئے مختلف پروگراموں اور سکیموں کو نافذ اور وضع کرتی ہے۔ ان میں بالخصوص تیار کردہ سکیموں سے اہم شعبوں میں ادارہ سازی کے ذریعے معاشی، تعلیمی اور سماجی ترقی شامل ہے۔
حکومت کی مدت سے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے قبائلی نوجوانوں کو پیشہ ورانہ شعبوں میں مہارت حاصل ہواور اِس کے لئے حکومت 500 نوجوانوں کو مختلف پیشہ ورانہ کورسز کے لئے منتخب کیا گیا۔
ایک اہلکار نے کہا،”قبائلی طلباءکے سکالر شپ کے لئے 30 کروڑ روپے سالانہ مختص کئے گئے ہیں۔ قبائلی طلباءکے لئے پندرہ ہوسٹلوں کو اَپ گریڈ اور جدید بنایا گیا تھا۔“
حکومت ہند نے جموں و کشمیر میں 28 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت سے تعمیر کیے جانے والے آٹھ مقامات پر قبائلی ٹرانزٹ رہائش کے ایک منصوبے کو بھی منظوری دی ہے۔
قبائلی اَمور محکمہ نے قبائلی آبادی کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لئے قبائلی دیہاتوں میں مِلک وِلیج، دودھ کو ٹھنڈا کرنے والے پلانٹس (ایم سی پی)، دودھ کی مصنوعات کی پروسسنگ اور دیگر سہولیات کے قیام کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کا مقصد ان علاقوں میں دودھ کی پیداوار اور سپلائی چین کو سپورٹ کرنا ہے۔ . اس منصوبے کا مقصد 1500 سے زائد قبائلی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا اورمرحلہ اوّل میں بنیادی ڈھانچہ کی تخلیق ہے جس کے بعد تمام اضلاع میں توسیع کی جائے گی۔
مِلک وِلیج کے قیام کے لئے مرحلہ اوّل میں سولہ دیہات کو اَپنایا گیا ہے جبکہ 2 جاری منصوبے تکمیل کے لئے ہیں جن پر مجموعی طور پر 1500 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔

قبائلی امور محکمہ کی طرف سے منظور شدہ تمام مِلک صد فیصد سرکاری فنڈنگ سے قائم کئے جا رہے ہیں جبکہ محکمہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ساتھ 100 مِلک ولیجوں اور چِلنگ پلانٹس کے قیام کے لئے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ساتھ فعال طور پر تال میل کر رہا ہے جس میں سکیم پیشگی سبسڈی اوراِنٹرسٹ ہے۔سب ونشن کی تلاش کی جارہی ہے۔
مختصراً یہ کہ ایف آر اے ۔2006ءکی عمل آوری سے قبائلی برادریوں کو ان کے جائز حقوق مل رہے ہیں جس کے لئے وہ کئی دہائیوں سے ترس رہے تھے اور حکومت نے قبائلی برادریوں کے معاشی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کئی دوسرے اقدامات بھی شروع کئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.