منگل, مئی ۱۳, ۲۰۲۵
25.7 C
Srinagar

اشارہ تو ملالیکن ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

نظر نہ آنے والے وائرس کی بدولت گزشتہ دو برسوں کے دوران تو ہماری دنیا ہی بدل گئی ۔اب چہار سو(شمال وجنوب ،مشرق و مغرب) وبا سے بدل رہی دنیا کی ہی بات ہورہی ہے ۔

سونا جاگنا، کھانا پینا، آنا جانا، پڑھنا لکھنا، گھر دفتر، غرض سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ وبا ہے یا بلا ۔۔۔۔۔ جس نے مسجد، مندر، گردوارہ، چرچ، کعبہ، کلیسا سب سونے کر دیے۔ عبادت کے آداب بدل گئے۔

میل ملاپ، پکنک، پارٹیاں، میلے ٹھیلے، دعوت ہلا گلا سب بند۔ صرف گھر کی چہار دیواری اور گھر میں رہنے والے وہ چند افراد جنہیں آپس میں بات کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی، اب وہی محور اور مرکز ہیں۔

قریبی دوست رشتے دار بھی صرف فون یا ویڈیو کال پر ملتے ہیں بات کرتے ہیں ۔اللہ اللہ خیر صلا۔ لوگ گھروں میں مقید ہیں، اس ظالم کے خاتمے تک، آن لائن اسکول کالج چل رہے ہیں، دفتر بھی گھر میں کھلے ہیں۔

یہ وبائی انقلاب ایک وائرس کی بدولت آیا یعنی کووڈ ۔19 جسے عرفِ عام میں کورونا وائرس کہا جارہا ہے۔ اس نے وبا کی صورت میں تمام دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہم نے کب ایسا سوچا تھا، سب اپنی اپنی دنیا مین مست تھے سب کچھ تہہ وبالا کردیا اس وبا نے، اس کورونا کی بدولت معاشرتی آداب ہی بدل گئے۔

سماجی فاصلہ رکھنا لازم ہوگیا، مصافحہ اور معانقہ ممنوع ہوا، کھانسنا چھینکنا جرم قرار پایا۔ پہلے جو بد تہذیبی تھی تہذیب ہوئی دور سے آداب کہنا درست یا پھر ہیلو ہائے بائے وہ بھی چھ فٹ کے فاصلے سے۔

ہاتھ دھونا بار بار دھونا لازم ہوا، الکحل ستر فیصد سینٹائزر ہاتھوں پہ ملنا ضروری چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وبا ختم ہونے کے بعد بھی وبا کے اثرات کم سے کم دو سال تک رہیں گے اور یہی طرز معاشرت دوسال تک برقرار رکھنی پڑے گی، پھر ہم عادی ہو جائیں گے اس طرز کے۔ ہماری آنے والی نسلیں دعا سلام سے بھی گئیں، ہم انھیں بتایا کریں گے کہ کیسے پہلے کے لوگ سلام کرکے ہاتھ ملاتے تھے، گلے ملتے تھے، دے تالی کہہ کر داد دیتے تھے۔

بزرگ سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دیتے تھے۔ کتنا ظالم ہے یہ وائرس جادو کی جھپی کا جادو ختم کردیا۔بقول شاعر ”دنیا کو انتہائے ترقی پہ ناز تھا!،اوندھی پڑی ہے خاک پہ اس انتہا کے بعد“۔بالکل پوری دنیا کو اپنی ترقی ایٹمی ہتھیار اور نہ جانے کیا ۔سب پر دنیا کو ناز تھا ۔لیکن آج سب بے بس اور لاچار ہیں ۔شاعر حماد عاجز اپنے اشعار بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔(کون کہتا ہے یہ وبا کے دن ہیں؟۔۔آنکھیں کھولو یہ سزا کے دن ہیں۔۔

مانگ لو معافیاں رب سے عاجز۔۔بات سمجھو یہ دعا کے دن ہیں)۔چونکہ وبا نے نئی نئی شکلیں بھی اختیار کی ہیں ۔کبھی یہ وبا اومیکرون تو کبھی کسی اور شکل میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔

اب جبکہ رفتار کم ہونے لگی اور دنیا میں آگے کی طرف دیکھنے لگی ،ہماری انتظامیہ نے بھی واضح اشارہ دیا کہ آہستہ آہستہ اسکولوں کو کھولا جائیگا ،جن پر دو سال نہیں بلکہ تین سال تالے چڑھے ہوئے ہیں ۔

بچے ذہنی عتاب کا شکار ہوگئے ہیں اور اب گھروں میں وہ حرکتیں انجام دینے کے لئے جو اُن سے تو قع ہی نہیں ہے ۔اسکول کھولنا اور بند رکھنا ،ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔ہمیں احتیاط کیساتھ ہی زندگی گزار نی ہوگی۔

Popular Categories

spot_imgspot_img