وادی کے اکثر وبیشتر علاقوں سے یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ آوارہ کتوں اور جنگلی جانوروں نے لوگوں کا جینا دوبر کردیا اور اس طرح روز انسان ۔حیوان تصاد م تشویشناک رخ اختیار کرتا جارہا ہے ۔گزشتہ دنوں پٹن بارہمولہ میں ایک کمسن بچے کو آوارہ کتوں نے حملہ کر کے ازجان کر دیا اور مقامی لوگوں نے میونسپل حکام اور مقامی انتظامیہ کےخلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ بارہمولہ۔ سرینگر سڑک پر احتجاجی دھرنا دیا اور کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام کیا ۔ہر علاقے میں کتو ں کے جھنڈ نظر آرہے ہیں اور راہ چلتے مسافر خوف زدہ ہو رہے ہیں ۔یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ کتوں کی زیادہ تر تعداد اُن جگہوں پر نظر آرہی ہے، جہاں میونسپل حکام نے کوڈے دان نصب کئے ہیں یا جہاں پر کوڑا کرکٹ جمع کیا جا رہا ہے ۔سرکار اور انتظامیہ کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس خطرناک معاملے کا سدباب کرے اور لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ضروری اقدامات اُٹھائے ۔مگر ایک بات جو شدت سے محسوس کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ عام لوگوں نے بھی ایسے کام انجام دئیے ہیں یا انجام دے رہے ہیں جن کی وجہ سے ان آوارہ کتوں اور جنگلی جانوروں کو انسانی آبادی میں آنے کیلئے مجبور کر دیا گیا ۔جنگلات کی بے دریغ کٹائی ،آبی ذخائر کا خاتمہ اورکھلے میدانوں میں بستیوں کا قیام وغیرہ بھی کسی حد تک انسا ن ۔حیوان تصادم کی وجہ بتائی جارہی ہے ۔جہاں تک حکام کا تعلق ہے ،وہ بھی اس حوالے سے کمزور نظر آرہے ہیں ۔میونسپل حکام نے کتوں کی نسبندی کیلئے اگر چہ شروعات کی تھی، لیکن زمینی سطح پر ان کتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔اگر ملک کے دارالخلافہ دہلی کو دیکھا جائے ،وہاں کُتے سڑکو ں پر گھومتے ہوئے نظرنہیں آرہے ہیں۔ اگر کہیں پر کوئی کتا دکھائی بھی دیتا ہے ،اُس پر باضابطہ رنگ سے نشان لگا ہوا ہوتا ہے کہ یہ نسبندی شدہ کتا ہے ۔بہرحال وادی میں جموں کی نسبت ان آوارہ کتوں کی تعداد اس قدر تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے اور کیوں روز روز لوگ اور مویشی ان کتوں کا نوالہ بن جاتے ہیں ۔سرکار کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے اور مرکزی سرکار کو بھی اپنے قانون میں ترمیم کر کے وادی کیلئے خصوصی ریا عت اس حوالے سے دینا چاہیے تاکہ ان آوارہ کتوں سے یہاں کے عوام کو نجات مل سکے اور انسان اور مویشی دونوںمحفوظ رہ سکےں۔