صحافیوں کا سری نگر میں ‘سکھ باڈی’ کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ

صحافیوں کا سری نگر میں ‘سکھ باڈی’ کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ

سری نگر، یکم جولائی (یو این آئی) مختلف قومی و مقامی میڈیا اداروں سے وابستہ نامہ نگاروں نے جمعرات کو یہاں اس وقت گردوارہ پربندھک کمیٹی بڈگام کی طرف سے بلائی جانے والی پریس کانفرنس کو کور کرنے سے بائیکاٹ کیا جب وہاں موجود کچھ سکھ لیڈروں نے نامہ نگاروں کے ساتھ گرم گفتاری و بدزبانی کی۔
گردوارہ پربندھک کمیٹی بڈگام نے جمعرات کو گیارہ بجے گردوارہ شہید بنگا صاحب واقع باغات برزلہ پر ایک پریس کانفرنس بلائی تھی۔ مذکورہ کمیٹی کے صدر سنت پال سنگھ نے اس پریس کانفرنس کو کور کرنے کے لئے میڈیا اداروں کو دعوت نامے بھیجے تھے۔
پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی وہاں موجود کچھ سکھ لیڈروں نے میڈیا پر رعناواری واقعہ کی متعصبانہ رپورٹنگ کرنے کے الزامات عائد کر دیے جب وہاں موجود ایک سینیئر صحافی نے انہیں نامہ نگاروں کے کام کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی تو سکھ لیڈران آپے سے باہر ہو گئے اور صحافیوں کے بارے میں بدزبانی اور مزید الزامات عائد کر دینا شروع کر دیے۔
ایک صحافی نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سکھ لیڈروں نے الزام لگایا کہ میڈٰیا نے چار لاپتہ سکھ لڑکیوں اور انہیں جبری مذہب تبدیل کرنے کے واقعوں کو صحیح سے رپورٹ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب ایک سینیئر صحافی نے سکھ لیڈروں کو صحافیوں کے کام کاج کے بارے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ گرم گفتاری اور بدزبانی پر اتر آئے۔
موصوف نے کہا کہ اس واقعے کے بعد وہاں موجود سبھی صحافیوں نے اس پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کا متفقہ فیصلہ لیا۔
بعض میڈیا اہلکاروں کا ماننا ہے کہ مستقبل میں مذہبی نوعیت کی پریس کانفرنسوں کا انعقاد مذہبی مقامات کے بجائے کسی دوسری جگہ، ترجیحی طور پر سری نگر میں واقع پریس کلب، میں کیا جانا چاہئے تاکہ اس نوعیت کے واقعات رونما نہ ہو سکیں۔
دریں اثنا گردوارہ پربندھک کمیٹی بڈگام کے صدر سنت پال سنگھ سے جب یو این آئی اردو نے اس واقعے کے بارے پوچھا تو ان کا کہنا تھا: ‘میں خود لنگر میں تھا مجھے نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوا’۔
انہوں نے کہا: ‘کسی شیطان بندے نے یہ گستاخی کی ہوگی مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ ہوا ہے میں پریس کانفرنس کے لئے کرسیاں لگوا رہا تھا کہ معلوم ہوا وہ چلے گئے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ وزارت داخلہ ایک میٹنگ میں شرکت کرنے کے لئے آج ہی دلی جا رہے ہیں۔
قبل ازیں شرومنی اکالی دل نئی دہلی کے صدر پرمجیت سنگھ نے 29 جون کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ انتظامیہ اور مسلم سکالرز بالخصوص میرواعظ کی مداخلت سے مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا: ‘میں انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے اقلیتی طبقے کا پورا ساتھ دیا۔ اس کے بعد ہماری ملاقات میرواعظ والوں اور دیگر مسلم سکالرز سے ہوئی۔ انہوں نے ہمیں جو تعاون فراہم کیا وہ ہم زندگی بھر بھول نہیں سکیں گے’۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہمارا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ لڑکی پہلے جس کو چاہتی تھی اس کے ساتھ شادی ہو گئی ہے۔ شادی کروانے کے بعد ہی ہم یہاں آئے ہیں’۔
پرمجیت سنگھ نے بعض سکھ لیڈران کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات پر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا: ‘اگر ہماری کیمونٹی میں سے کسی نے اشتعال انگیز باتیں کی ہیں تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں’۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘دلی سے سکھ آیا اس نے باتیں کیں میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔ میں اس کی کہی ہوئی باتوں کے لئے آپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں’۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.