اتوار, جنوری ۲۶, ۲۰۲۵
-3 C
Srinagar

عوامی جذبات کا ترجمان کون 

ملک کی دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں بھی پارلیمانی انتخابات کی دنگل زوروں پر ہے۔ سیاسی لیڈران اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں جلسے اور ریلیاں منعقد کرواتے ہیں جہاں وہ اپنے حریفوں کےخلاف کھل کر بولتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں کہ انوں نے اقتدار حاصل کرکے عام لوگوں کا استحصال کیا ہے۔ پی ڈی پی ، نیشنل کانفرنس پروار کرتی ہے جبکہ کانگریس اور پی سی بھی ہم کسی سے کم نہیں کا نعرہ بلند کرکے لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں دن رات محنت کرتے ہیں۔ انتخابی دنگل میں شامل ہوتے ہی سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بولنے میں اس قدر مشغول ہو جاتے ہیںکہ انہیں اپنی پارٹی کا منشور تک یاد نہیں رہتا ہے۔ آج تک اس ریاست میں یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ یہاں کام کم جبکہ باتیں زیادہ سامنے آرہی ہےں کہ ریاستی عوام کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی ، فلاح و بہبود ، ریاستی عوام کو موجودہ پُر آشوب حالات سے نجات دلانے میں بہت بڑا رول ادا کر یں گے لیکن اقتدار ختم ہو جاتا ہے نئی انتخابی دنگل پھر سے شروع ہو جاتی ہے اور حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہی ہو رہے ہیں۔ مرحوم مفتی محمد سعید نے اہل ریاست کے سامنے جب یہ نعرہ دیا تھا کہ گولی سے نہیں بولی سے بات بنے گی تو ریاستی عوام نے انہیں منڈیٹ دیکر مسند اقتدار پر بٹھایا لیکن نہ ہی گولی بند ہوئی اور نہ ہی ان کے ساتھ پیار محبت اور ہمدردی کی بولی بولی گئی۔ اس سے قبل جب نیشنل کانفرنس کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تو انہوں نے اٹانومی کا وہ نعرہ دینا ہی بند کیا جو وہ انتخابی دنگل کے دوران دیتے آئے تھے جہاں تک پی سی کا تعلق ہے وہ بھی سیلف رول اور اٹانومی کی طرح نیشن ہوڈ (Nation Hood)کا اپنا دستاویز الماری میں رکھ کر بڑے بھائی یعنی نریندر مودی سے گلے مل گیا اس طرح ریاستی عوام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے غلام نبی آزادی کی سربراہی والی مخلوط سرکار کے دوران چند ایک تعمیراتی پروجیکٹوں پر کام شروع کیا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے انہیں دہلی واپس جانے کےلئے مجبور کیا گیا ۔اب چونکہ بی جے پی اور باقی پارٹیوں کا چہرہ ریاستی عوام کے سامنے آچکا ہے وہ سیاست سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ کیونکہ ان کے جذبات کو س طرح ٹھیس پہنچائی گئی گویا وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ نظر آتے ہیں ۔ اگر واقعی ریاست کی سیکولر پارٹیاں یہ متفقہ فیصلہ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہیںکہ وہ ریاستی عوام کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں انتخابات کے ذریعے ایک مشترکہ جدو جہد شروع کریں گی تو بات بن جائے گی جو عام لوگ انتخابی سیاست سے نفرت کرنے لگے ہیں وہ شائد انتخابی سیاست میں دلچسپی لینے لگیں گے اور اس طرح جمہوری نظام مضبوط ہونے کی امید ہے جس پر فی الحال اہل ریاست خاصکر وادی کے عوام کو بھروسہ ختم ہو چکا ہے ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پارلیمانی انتخابات کے بعد جو پارٹی میدان مار لے گی وہ کس قدر عوامی احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں اس کے نمایاں اثرات مرتب ہونگے جس کا بے صبری سے انتظار رہے گا۔ 

Popular Categories

spot_imgspot_img