غلو فی الدین ایک مطالعہ از مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی

غلو فی الدین ایک مطالعہ از مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی

کتاب نما

تبصرہ:عاصم رسول/سرینگر

زیر نظر کتاب ہندوستان کے معروف و مشہور عالمِ دین،مبلغ اور کئی علمی کتابوں کے مصنف حضرت مولانا مفتی شعیب اللہ خان مفتاحی صاحب کی ہے۔مصنف مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اچھوتے مگر نہایت اہم موضوع پر خامہ فرسائی کی۔کتاب کے فہرستِ مضامین پر نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے نہایت گہرائی سے اس مسئلہ کو سمجھا ہے اور ہر مسئلہ پر مفصل کلام فرمایا ہے۔کتاب میں غلو فی الدین کی تمام صورتیں چاہے زمانہ قدیم سے تعلق رکھتی ہوں یا پھر جدید زمانہ میں ان سے معاملہ درپیش ہو،ان کو قاری کے سامنے پیش کرنے کی سعی بلیغ کی ہے۔ مصنف اس موضوع کو تحریر کرنے میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کتاب میں شامل آٹھ محققین امت کی تقاریظ میں انہوں نے مصنف کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس کتاب کی تصنیف کے لیے مصنف کو داد دی ہے۔

یہ بات کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ”غلو فی الدین“موجودہ زمانے کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ ہے ۔غلو فی الدین بھی ایک اہم وجہ ہے کہ امت افتراق کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے مختلف طبقات اور گروہوں میں خلیج پیدا ہوگئی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بیماری کے نشوونما پانے میں ان افراد و گروہوں اور جماعتوں کا بڑا رول ہے جو اگر چہ تعلیم و تعلم سے وابستہ ہیں لیکن ”تنگ ذہنی“ اور ”تعصب“ کی وجہ سے غلو کاشکار ہوگئیں۔اس کی طرف مصنف نے بھی توجہ ان الفاظ میں دلائی ہے:

”عجیب بات یہ ہے کہ یہ ”غلو فی الدین“کی بیماری اگرچہ جہلا اور بے دین قسم کے لوگوں میں بھی ہوتی ہے،مگر زیادہ تر ان لوگوں میں ہوتی ہے جو دین دار کہلاتے یا دین سے وابستہ ہونے کے مدعی ہوتے ہیں اور ان میں افراد بھی شامل ہیں اور جماعتیں بھی، طبقات بھی داخل ہیں اور فرقے بھی اور اسی لیے اس راہ سے آنے والا بگاڑ گہرائی و گیرائی دونوں طریقوں سے امت میں بڑے پیمانے پر پھیل جاتااور لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔“

دین اسلام کی خاصیت ہی یہ ہے کہ یہ اعتدال اور توسط کی تعلیم دیتا ہے اور افراط و تفریط کی ہر صورت کی نفی کرتا ہے ۔ قرآن مجید کی پہلی ہی سورت سورة الفاتحہ میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ”صراط المستقیم“پر قائم رہنے کی دُعا سکھائی اور مغضوب اور گم راہ لوگوں کی راہ پر نہ چلانے کی دُعا مانگنے کی تلقین کی۔

کتاب ،تمہید اور تقاریظ کو چھوڑ کر چھ(۶) فصول میں تقسیم کی گئی ہے۔پہلی فصل ”غلو کی تعریف اور حقیقت“ دوسری فصل”غلوفی الدین کی حرمت و ممانعت“ تیسری فصل”تاریخ مذاہب میں غلو کی بنیادو ابتدا“،چوتھی فصل” غلو فی الدین کے اسباب“پانچویں فصل”غلو فی الدین کی قسمیں “ اور چھٹی فصل”دین میں غلو کی مختلف صورتیں“ ہیں۔ مذکورہ چھ فصول بھی بہت سارے ذیلی عنوانات میں تقسیم ہیں۔چھٹی فصل ”دین میں غلو کی مختلف صورتیں“میری حقیر رائے میں بہت اہم ہے جس میں مصنف موصوف نے دور جدید کے مختلف سلگتے مسائل (Burning issues)پر نہایت بصیرت افروز کلام کیا ہے۔مذکورہ کتاب سے چند اقتباسات قارئین کی دل چسپی کے لیے درج ذیل ہیں:

”تقلید کی شرعی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ مگر شریعت نے اس کی بھی حدمقرر کردی ہے،اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔تقلید میں ایسا جمود کہ بغیر غور و فکر کے احادیث کے مقابلے میں ائمہ کی تقلید کو پیش کریں اور اس کے مقابلے میں احادیث کو رد کردیں، یہ غلو بھی مذموم اور ناجائز ہے ۔“ اس حوالے سے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ایک اہم قول کتاب میں پیش کرتے ہیں جسے یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، اس میں تھانوی صاحبؒ فرماتے ہیں:

”بعض اہلِ تعصب کو ائمہ کی تقلید میں ایسا جمود ہوتا ہے کہ وہ امام کے قول کے سامنے احادیثِ صحیحہ غیر معارضہ کو بے دھڑک رد کردیتے ہیں۔میرا تو اس سے رونگٹھا کھڑا ہوجاتا ہے۔ چناں چہ ایک ایسے ہی شخص کا قول ہے:”قال قال“بسیاراست، مرا”قال ابوحنیفہ “درکار است“،اس ترجمہ میں احادیث نبویہ ﷺ کے ساتھ کیسی بے اعتنائی اور گستاخی ہے، خدا تعالیٰ ایسے جمود سے بچائے۔ ان لوگوں کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوحنیفہؒ ہی کو مقصود بالذات سمجھتے ہیں،اب اس تقلید کو کوئی”شرک فی النبوت“کہہ دے تو اس کی کیا خطا ہے؟مگر یہ بھی غلطی ہے کہ ایسے دوچار جاہلوں کی حالت دیکھ کر سارے مقلدین کو’شرک فی النبوت“سے مطعون و متہم کیا جائے۔“{اشرف الجواب۲/۱۲۷}

آج علماءکی تعلیمی ، تدریسی اور تحقیقی خدمات کی تحقیر و تضحیک کچھ نادان لوگوں کی جانب سے ناقابل برداشت حد تک ہو رہی ہے۔ایسی پست سوچ رکھنے والوں کا نقد کرتے ہیں ہوئے مصنف لکھتے ہیں:

”ہم ایسے لوگوں(جو علماءکی تحقیر کرتے ہیں)سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ کی نماز کسی امام کے پیچھے ہوتی ہوگی، یہ امام کس کی دَین ہے؟تراویح کی نماز میں قرآن کی تلاوت سننے کا شرف ملتا ہوگا،یہ قرآن سنانے والے حفاظ کہاں سے پیدا ہورہے ہیں؟ آپ کو مسائل جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، تو مفتیانِ کرام فتوی دیتے ہیں، یہ کہاں کی پیداوار ہیں؟ ہدایات و خرافات سے کون ٹکر لیتا ہے؟ حق کو کون واضح کرتا ہے؟ سنت کی ترویج و اشاعت کا کام کون کرتا ہے؟ ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“کی انجام دہی کس طبقے سے ہورہی ہے؟ ملت پر کوئی نازک وقت آتا ہے اور دین پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ کون طبقہ ہے؟ جو تیغِ براں بن کر کھڑا ہوتا ہے؟ دنیا بھر میں اس گئے گزرے دور میں بھی حفاظ و قرا، علماءو مفتیان، مفسرین و محدثین وغیرہ کہاں سے وجود میں آرہے ہیں اور دنیا بھر میں یہ علم کے چرچے اور دین کی رونق، مساجد کی آبادی کا سامان کہاں سے ہورہا ہے؟ کیا اس کا جواب اس کے سوا کچھ اور بھی ہے کہ علما ءو اہل ِ مدارس ہی ہیںجو یہ سب کام انجام دیتے آرہے ہیں ۔“

استعماری طاقتیں مدارسِ اسلامیہ کے خلاف بالخصوص برصغیر کے تناظر میں جو سازشیں رچ رہی ہیں اس کی وجہ مصنف یوں فرماتے ہیں:

 ”برصغیر میں مغربی و سامراجی طاقتوں کو توڑنے اور اس کے اثر و نفاذ کو روکنے میں ان مدارس نے جو انتہائی موثر ترین رول انجام دیا ہے، وہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ اس کا کوئی منصف انکار نہیں کرسکتا، چناں چہ جہاں جہاں یہ مدارس موجود تھے اور جہاں جہاں علمائے اسلام موجود تھے، وہاں وہاں مغربی سیلاب کی ایسی مزاحمت ہوئی اور اس کی راہ میں وہ رکاوٹ پیدا ہوئی، جس کا ان مغربی لابیوں کو شاید پہلے سے کوئی اندازہ نہیں تھا، اسی لیے برصغیر ساری دنیا میں وہ واحد خطہ ہے، جہاں مغربی اثرونفوذ سب سے کم ہوا ہے،لہٰذا یہ مدارس ان کی آنکھ کا کانٹا بن گئے اور وہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے ہی میں اپنی کامیابی تصور کرنے لگے،کیوں کہ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ اس پروپیگنڈے کا اثر اتنا تو ہوگا کہ خود مسلمان قوم میں سے کچھ لوگ اس سے متاثر و مرعوب ہوکر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگیں گے اور یہی ہوا بھی ،جیسا کہ عرض کیا جاچکا ۔ یہ ہے وہ اصلی وجہ، جس کی وجہ سے مدارس کو بدنام کرنے اور ان کو کبھی دہشت گردی کے اڈے قرار دینے اور کبھی بے مصرف و فضول باور کرانے ، کبھی یہاں کے نصاب و نظام کو فرسودہ دور کے یادگار ٹھہرانے اور کبھی یہاں کے علماءوفضلا کو دقیانوسی و تاریک خیال و تنگ نظر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔“{صفحہ:۲۱۸}

دینی جماعتوں کے کام اور ان کی خدمات کو مصنف جہاں دل سے سراہتے ہیں اور معاشرے میں ان کے مثبت اثرات کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں وہیں ان کی اس منفی سوچ و اپروچ کی بھی نشان دہی فرماتے ہیں جو غلو فی الدین کا سبب بن رہا ہے ۔مثلا تبلیغی جماعت کی خوبیوں اور ایمانی محنت کو مفصل بیان کرتے ہوئے ان کی کمزوریوں کو نہایت دل سوزی اور کمالِ ادب سے تحریر کرتے ہوئے جماعت کے ذمے داروں کو اس جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبندحضرت محمود الحسن گنگوہی  کا یہ فتوی نقل کرتے ہیں:

”….تبلیغی جماعت کا اصل مقصد دین کی طلب عام کرنا ہے، جس سے مدارس کو طلبہ بھی کثرت سے ملیں اور خانقاہوں کو ذاکر بھی کثرت سے ملیں اور ہر مسلمان کے دل میں دین کی اہمیت پیدا ہو، اہلِ علم اہلِ مدارس حضرات کو حسبِ موقعہ تعاون فرمائیں۔ اگراس میں کوتاہی اور خلافِ اصول چیزیںدیکھیں تو خیرخواہی اور ہمدردی سے ان کی تصحیح کریں، اصلاح کریں اور جماعتوں کے ذمے ضروری ہے کہ خانقاہ اور مدارس کا پورا حترام کریں اور اپنی اصلاح کے لیے ان حضرات سے مشورہ لیں اور ان کی ہدایات کو دل و جان سے قبول کریں، ان کو ہرگز ہرگز دعوت نہ دیں کہ یہ حضرات اپنے دینی مشغلے کو ترک کردیں اور مدارس و خانقاہوں کو بند کرکے تبلیغ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔“{فتاویٰ محمودیہ: ۴/۲۴۲۔۲۴۳}

بہر کیف ۴۵۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔اس موضوع پر یہ کتاب نہایت جامع ہے ۔اس کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ اسے جدید طرز کے تحقیقی اصولوں پر مرتب کیا گیا ہے ۔قرآن و حدیث اور علماءو صلحاءکے اقوال سے کتاب مزین کی گئی ہے۔تحقیقی کام کرنے والوں کی سہولت کے لیے تمام قرآنی آیات کا حوالہ،احادیث کی تخریج اور علمائے امت کے اقوال کے ماخذ ساتھ دئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور امت کو بہ نظر انصاف اس سے بھر پور استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.