اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ”شراب بُرائیوں کی ماں ہے “۔اگر ہم تایخ کے اوراق کو پلٹیں تو ہمیں پچھلی اُمتوں کی تباہی و بربادی کے اسباب شراب میں ہی نظر آتے ہیں ۔جرائم کا بڑھنا ،بیماریوں کا پھیلنا،زنا کا عام ہونا ،قتل و غارت گری ،فحاشیت و عریانیت کا پھلنا غرض جس قسم کی بیماری یا قبیح فعل ہمارے موجودہ دور یا پچھلی قوموں میں واقع ہوتا ہے اس کے پیچھے زیادہ تر ہاتھ شراب کا ہی ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورہ المائدہ میں شراب کی حرمت کے حوالے سے یوں فرمایاہے ترجمہ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور یہ پانسے ،یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ،ان سے پرہیز کرو ،اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ۔(المائدہ:۹۰)پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عرب معاشرے نے شراب کو تین طلاقیں دے کرعرب کو امن و سکون کا گہوارہ بنا دیا ۔شراب کی حُرمت کی آیت جیسے ہی نازل ہوئی لوگوں نے اپنے حلق سے شراب قے کر کے واپس نکالی اور شراب کے مٹکوں کو عرب کی گلیوں میں ایسے بہا یا جیسے پانی کی ندیاں بہہ رہی ہوں ۔مگر ہم دیکھتے ہیں رفتہ رفتہ اُمت نبی ﷺکے دور مبارک سے جیسے جیسے دور ہوتی گئی لوگوں نے اسی اُم الخبایث کے ذریعے سے اپنے آپ کو سکون دلانا چاہا۔مگر واے افسوس ….!!!
جس نے بھی شراب سے اپنے آپ کو سکون دلانا چاہا اس کی زندگی سے چین و سکون ہی چھن گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت شراب کی وجہ سے بے حیائی ،فحاشیت و عریانت، زنا، قتل و غارت اپنے عروج پر ہے اتنا ہی نہیں اس کی وجہ سے انسان اپنی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ۔ایک اچھی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کو شراب کی وجہ سے نفسیاتی اور دل کی بیماریوں نے بُری طرح سے جکڑا ہواہے ۔اگر ہم برصغیرمیں ہندوستان کی بات کریں توحال ہی میں ہندوستان کے ایک اخبار انڈین ایکسپریس میں این ،سی آر ،بی National Crime Records Bureauکی ایک رپورٹ منظر عام آئی جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 96منٹوں میں ایک آدمی شراب پینے کی وجہ سے مرتا ہے یا 15افراد ہر دن شراب پینے کی وجہ سے از جان ہوتے ہیں ۔اسی بات کو خاطر میں لاتے ہوے رواں سال میں تامل ناڈو کی حکومت نے ۵۰۰ شراب دکانوں کو بند کر دیا ۔اسی طرح سے اپریل ۲۰۱۶ءمیں نتیش کمار کی حکومت نے بہار میں شراب کی خرید و فروخت ر پابندی عائد کر دی ۔اسی طر ح کیرلہ میں پانچ ستارہ ہوٹلوں میں شراب پر پابندی عائد کر دی ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے نبی مہرباﷺ نے فرمایا ہے کہ شراب اُم الخبائث ہے یعنی یہ تمام بُراﺅں کی جڑ یا ماں ہے ۔اور اسی بُرائی کی جڑ کو اکھاڑنے کی کوشش کے تحت ہندوستان کی چند ریاستوں نے اس پر پابندی عائد کر دی مگر ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں مسلم آبادی ہونے کے باوجود بھی آج کی تاریخ میں ۷ شراب کی دکانوں کو سرکاری لائسنس حاصل ہے جو بڑے پیمانے پر وادی کشمیر میں اُم الخبائث کا کارو بار کر رہی ہیں ۔وادی کشمیر کو ”پیر وار“بھی کہا جاتا ہے ۔جب بھی کوئی بزرگ یہاں آیا انہوں نے یہاں پر بُرائیوں اور بے حیائیوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی، قبیح کاموں سے عوام کو دور رکھا ۔ سرینگر کے ایر پورٹ کا نام بھی ایک اعلیٰ پائے کے بُزرگ اور شاعر حضرت شیخ نورالدین نورانیؒ جسے ہم شیخ العالم کے نام سے بھی جانتے ہیںرکھا ہے ۔مگر کیا کریں گاہے گاہے ان ہی بُزرگوں کے مشن اور کارناموں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں او ریہ کوئی اور نہیں بلکہ یہاں کے برسر اقتدار لوگ کرتے ہیں ۔کبھی یہاں کے حکمران سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ اس پیر واری میں سینما گھروں کو کھول دیاجائے گا اور کبھی یہاں منصوبہ بند طریقے سے شراب کو عام کرنے کوششیں کی جاتی ہیں ۔وا حسرتا….!!
اپنے ناپاک عزائم میں رنگ بھرنے کے لیے ’ا ئر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا کے ذریعے سے شیخ العالم ائرپورٹ پر شراب کی دکان کھولنے کے لئے ٹنڈر طلب کرنا اور یہ کہنا کہ اس طرح کشمیر کی جانب زیادہ سے زیادہ سیاح رُخ کریں گے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے۔،ان عقل کےے اندھوںکو کون سمجھائے کہ جہاں سے یہ لوگ آتے ہیں وہاں کی آبادی کا جینا شراب کے خرید فروخت سے دو بھر ہوچکا ہے ۔جب ہندوستان کی ریاستوں میں شراب پر پابندیاں عائد کر دی جا رہی ہوں تو مسلم اکثریتی علاقوں میں م الخبایث کو ایک منظم طریقے سے پھلانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے ….؟؟؟اصل میں مسلم اکثریتی ریاست میں نوجوانوں کوموج مستی اور بے راہ روی میں مست رکھا جانا مقصود ہے تا کہ یہ اپنی اصل مقصد زندگانی کو ہی بھول جائیں جو ایک دیوانے کی بھڑ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔بہرحال اس ٹنڈر کے فوراً بعد ارض کشمیر کی سیاسی مذہبی ،سماجی تنظیموں نے یک آواز ہو کر اس ٹنڈر کی پر زور مخالفت کی اور اس حوالے سے احتجاجی پروگرام بھی بننے لگے تھے تو عوامی غیض و غضب کو بھانپتے ہوئے یہاں کی انتظامیہ نے اپنی پہلے سے مسخ شدہ ساکھ کو بچانے کے لئے اپنے ادارے کو ترک کردیا۔یہ کہاں کی عقل مندی ہوئی جس میں ریاست میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے شراب و سینما کو کھولا جائے اگر سیاست کو فروغ دینا ہے تو سب سے پہلے ان لوگوں کو اپنی زبان قابومیں رکھنے کے لیے بولنا ہوگا جو کشمیر کے حالات کو شام و عراق سے جوڑ رہے ہیں اور جہاں انسانی آبادی میں فوج کا جماو ہو، جہاں ہر گلی اور نکڑ پر چیکنگ اور پوچھ تاچھ کے مراحل سے کوگزرنا پڑے وہاں سیاحوں کا آنا خوابوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے ۔کوئی بھی انسان فوجی چھاونیوں میں جانا پسند نہیں کرتا ۔