ہفتہ رفتہ کے دوران دو اہم خبروں نے عام کشمیریوں کو نہ صرف فکرو تشویش میں مبتلا کئے رکھا بلکہ ان دو خبروں کی تشہیر کے ساتھ ہی عوامی حلقوں میں غم و غصے کا برملا اظہار بھی دیکھنے کو ملا۔ پہلی تشویش ناک خبر یہ تھی کہ ائیر پورٹ اتھارٹی آف انڈیانے شیخ العالمؒ ائیر پورٹ سرینگر پراُم الخبائث یعنی شراب کی ایک دوکان کھولنے کے لیے ٹینڈرز طلب کئے تھے۔ اس حوالے سے دلیل یہ دی جارہی تھی کہ ائر پورٹ پر شراب کی دوکان کھول کر وادی کی جانب زیادہ سے زیادہ سیاح راغب ہوجائیں گے اور یہاں سیاحت کے شعبے کو فروغ حاصل ہو گا۔ بعد میں جب عوامی و مذہبی حلقوں نے اس تجویز پر شدید ردعمل کا اظہار کرکے مجوزہ اقدام کی کڑے الفاظ میں مخالفت کی تو اربا ب ِ حل وعقد کے ہوش ٹھکانے آگئے ، خاص کر جب عوامی سطح پر سر ی نگرائر پورٹ پر شراب فروشی کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج کی باتیں گشت کرنے لگیں۔ ہو اکا رُخ دیکھ کر ریاستی ایکسائز محکمہ اور ائر پورٹ حکام نے اپنے اس ارادے کو ترک کرنے کا فوری طور اعلان کردیا۔ دوسری نیوز ریاستی وزیر برائے پی ڈبلیو ڈی نعیم اختر صاحب کا یہ تازہ بیان ہے جو عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بن گیا کہ’’ وادی کے پچیس تیس سال کے نوجوانوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں ہے، ہمیں اُن کے لیے سینما ہال کھول دینے چاہیے‘‘ منسٹر صاحب نے اپنی بات کے حق یہ دلیل پیش کی کہ’’اگر پاکستان میں سینما ہیں، سعودی عرب اپنے یہاں سینما کھول رہا ہے تو بھلا ہم یہاں کیوں اپنے بچوں کو سینما ہال سے دور رکھیں؟‘‘بقول نعیم اختر صاحب کے اُن کی حکومت اس جانب پہل کرکے یہ بات یقینی بنائے گی کہ وادی میں سنیما ہال کھل جائیں اور یہاں کے نوجوان اُن کا رْخ کریں۔ایسی خبریں بظاہر یہاں کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنی ہوئی ہیں لیکن اگر خبروں کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں گے تو محسوس یہ ہوگا کہ یہ محض معمول کی عام خبریں نہیں ہیں بلکہ ان سے بین السطور مترشح ہوتا ہے کہ ہمارے ارباب ِحل وعقد کو یہاں کی مخصوص تہذیب، تمدن ، اخلاقیات اور فطری طور پر مذہب پرستی کا یا تو علم اور احسا س نہیں یا یہ انمول اثاثہ انہیںایک آنکھ بھی نہیں بھاتا۔
بے شک وادی کی سیاحت کو فروغ دینے اور زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو وادی کی جانب راغب کرناحکومت کا فرض منصبی ہے کیونکہ سیاحت ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے مگر سمجھ میں نہیں آتاکہ حکومتی اداروں کی تان ہمیشہ اس صرف ایک ہی راستے پر کیوں ٹوٹتی ہے کہ یہاں شراب کی دوکانیں کھولی جائیں ، حتیٰ کہ سرینگر کے طیران گاہ میں بھی اْم الخبائث کی خریدوفروخت کا دھندا شروع کیاجائے تاکہ سیاحوں کا استقبال ورخصتی جام وصراحی سے کیا جائے۔ کیا اس خبر پر عام لوگ برافروختہ نہیں ہوتے؟ یہ ایک بڑ ا ظالم مغالطہ ہے کہ سیاح شراب پینے کے لیے واردِ کشمیر ہوتے ہیں ،اس کے برعکس وہ کبھی امر ناتھ گپھا کی یاترا کے لئے ، کبھی تفریح طبع کے لئے ، کبھی یہاں کے مناظر فطرت کا لطف اٹھانے کے لئے ، کبھی اپنے یہاں شدید گرمیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے یہاں دوڑے دوڑے چلے آتے ہیں۔ اگربعض کرم فرماؤں کی اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ سیاح یہاں شراب کے لئے ہی قدم رنجہ ہوتے ہیں تو کیا اْنہیں ہندوستان میں شراب نہیں ملتی ہے جو یہاں آکر شراب پینے آئیں؟ یہاں پہلے ہی۷؍ لائنس یافتہ شراب کی دوکانیں اس خلط مبحث کے ساتھ چل رہی ہیں کہ یہ ٹورسٹ انڈسٹری کی ’’مجبوری‘‘ ہے۔ کئی ایک بڑے ہوٹلوں میں بھی اْم الخبائث کے بار مبینہ طور چل رہے ہیں کہ وہاں آنے جانے والوں کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ یہ مسلم ا کثریتی وادیٔ کشمیر میں ہے۔ بہرحال وادی کی جانب اگر سیاحوں کو راغب کرنا ہی مطلوب ہے تو پہلے اُن چینلوں اور نیوز اینکرزکی غلط بیانی روکئے جو دن رات کشمیر کے حالات کو سنسنی خیز بناکربھارتی عوام کو ڈرا رہے ہیں، جو کشمیر او رکشمیریوں کی شبیہ اس حد تک ڈراؤنا بناکر پیش کررہے ہیں کہ عام ہندوستانیوں کو لگتا ہے کہ کشمیر جانے کا مطلب موت کی وادی میں کود جانا ہے۔سیاحت کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں افسپا کا نفاذ ہے، اس کو اولین فرصت میں ہٹایاجائے کیونکہ دنیا بھر کے سیاح فوجی جماؤ والے خطے میں جانا پسند ہی نہیں کرتے، انہیں اس سلسلے میں ایڈوائزریوں سے ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ خطۂ مخاصمت میں نہ جائیں۔دوسرے ممالک کے سیاحوں کو یہاں لانے کے لیے لازمی ہے کہ سب سے پہلے کشمیر حل کی طرف بڑھاجائے لیکن ایسا کبھی بھی نہ کیا جائے گا کیونکہ ریاست میں نامساعد حالات کا تواتر کئی ایک خود غرض عناصر کے لئے نفع بخش انڈسٹری بن چکا ہے اور ان کے ذاتی مفادات افسپا کے مرہون منت ہیں۔ یہ سوچ کسی عقل کے اندھے کی ہی ہوسکتی ہے کہ سیاحت کو بڑھاوا دینے کے لیے شراب کی خرید وفروخت ایک ’’مؤثر اقدام‘‘ ہے۔ بایں ہمہ اگر یہ خیال صحیح ہوتا کہ اخلاقیات پر مادی مفاد کو ترجیح ملے تو بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو کیا کسی پاگل کتے نے کا ٹاتھا کہ ا س غریب ریاست کی زمام ِاقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے انتخابی وعدے کی تعمیل میں بہار کو شراب کی لعنت سے مْکت کیا؟ بہر حال ائرپورٹ سری نگر پہ شراب کا ٹینڈر واپس لینے پر حکومت کی بروقت کارروائی کا خیرمقدم کیاجانا چاہیے اورسونہ وار سری نگر میں چلڈرن ہسپتال کے عین روبرو ایکسائز محکمے کی شراب دوکان بھی مقفل کی جا نی چاہیے جیسا کہ حریت قائد میرواعظ عمر فاروق نے با ضابطہ طور اس کا مطالبہ بھی کیا۔
جہاں تک وزیر تعمیرات نعیم اختر صاحب کا سنیما ہال کھولنے کے حوالے سے اعلان کا تعلق ہے تو اُنہیں بالی وْڈ کا سماجی واخلاقی بے راہ روی بڑھانے میں اْس کے سفلی کردار سے متعلق ہند کے اہل ِدانش ، ماہرین سماجیات اور محب وطن عناصر کی زبانی سننا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ کس طرح تفریح طبع کے نام پر سنیماٹوگرافی کے بطن سے جرائم، برہنہ پن ، جنسی ہیجان، منشیات اور طرح طرح کے گھناؤنے مسائل سے فرد اور سماج بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں ، نیز فن آزری سے نوجوانوں کی فطری صلاحیتیں کس کس عنوان سے زائل ہورہی ہیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو وزیرموصوف کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اسلام عالم گیر دین ہے، اسلام کے اپنے قوانین اور احکامات ہیں، اسلام اپنے آپ میں ایک معتدل ومتوازن نظام ِ حیات اور عدل اجتماعی کا واحد نظام ہے جس پر عمل پیراہوکر ہی دنیا میں قیامِ امن اور بھائی چارہ ممکن ہوسکتاہے۔ اصولی طور اسلام وہی کچھ ہے جو اللہ کی کتاب اور اْس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ، ضروری نہیں کہ اسلام وہی سمجھا جائے جو موجودہ دنیا کے مسلم ممالک پیش کررہے ہیں۔ بحیثیت مسلمان نہ ہم پاکستان کے نظام کی پیروی کررہے ہیں اور نہ ہی سعودی نظام کی… ہمارے لیے رہبری و رہنمائی کے لیے صرف اللہ کی کتاب قرآن ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدینؓ کا طریق ِکار ہدایت کے سامان ہیں۔ دین پر کسی ملک یا فرد کی اجارہ داری قائم نہیں ، یہ ہر مسلمان کا دین ہے او رہر مسلمان کو دین کے بنیادی احکامات قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھنے چا ہیے اور ان پر پہلے خود عمل کردکھانا چا ہیے۔ اللہ کی نگاہ میں امریکہ یا افریقہ کا وہ پکا مسلمان قابل ترجیح ہے جو اسلام کے تقاضوں پر خلوص دل سے اْترنے کے لئے کوشاں ہو بہ نسبت اْس مسلمان کے جو کسی مسلم ملک میں ہو مگر دین سے برگشتہ یا اللہ سے رْوگردان ہو۔ اگر عرب یا عجم کا کوئی فرد یامسلم معاشرے سنیما کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی کے پھیلاؤ میں ممد ومعاون ثابت ہو تو ہم اس مغالطے کے ساتھ اس کے مقلد نہیں ہوسکتے کہ یہ شخص کسی دارالاسلام سے تعلق رکھتا ہے یا کسی مسلم ملک میں اس کو پذیرائی حاصل ہے۔ گناہ گناہ ہے، چاہے اس کا ارتکاب اسلامستان میں ہو یا کفرستان میں۔ موجودہ دنیا میں جتنی بھی فلم انڈسٹریاں دنیا بھر میں قائم ہیں وہ فحاشی، عریانیت، بے راہ روی اور اخلاق باختگی کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ سماجی قدروں ، خاندانی سسٹم اور رشتوں کو پامال کرنے کے منظم ادارے بنے ہوئے ہیں، یہ اولادِ آدم کو خدا بھلاکر شیطانیت کا پرستار بناتے جارہے ہیں۔ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبرانہ کردارا وراپنی اخلاقی تعلیمات کے بل پر بے حیائی اور بدی کے تمام سوتوں کو خشک کرد کھایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اْم الخبائث کی لت سے امت اسلامی کو مکمل طور چھٹکارا دلایا، وہیں نضر بن حارث کے ناچ نغموں اور قصہ گوئیوں کا قصہ بھی تمام کر دیا۔ ان تعلیمات کے اسپرٹ کو سمجھتے ہوئے پیرواری کے نوجوانوں کو’’تفریح ‘‘فراہم کرنے کے نام پر سینما کی خیالی دنیا کی صلاح نہ دیجئے بلکہ ا نہیں ا س سے روک کر یہ مخلصانہ صلاح دیجئے کہ وہ قلم اور کتاب کے توسط سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جلّا بخشیں، سماج کے تئیں اپنی انسانی ذمہ داریاں ادا کریں ،ا پنے ماں باپ اور بڑے بزرگوں کا حترام کریں ، اپنی دینی انفرادیت اور قومی تشخص کا پاس و لحاظ کریں ، اس تعمیری مشن میںنوجوانوں کو کھپا دینے اوراْنہیں اپنے اخلاقی و سماجی اقدار سے جڑے رہنے کی بجائے اگر کوئی اْنہیں گمراہی کے دلدل میں دھکیلنے کی وکالت کرے تو اْس کے بارے میں کیا رائے قائم کی جاسکتی ہے ، مجھے یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
اگر کسی وزیر باتدبیر کو کشمیری نوجوانوں کی فکر لاحق ہوتی تو وہ سب سے پہلے اْن کے تعلیمی کیرئیر کے لیے مخلص ہوتا، اْنہیں تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بہتر سے بہتر سہولیات اور موقع فراہم کرواتا لیکن ستم ظریفی یہ کہ موجودہ حکومت میں سب سے زیادہ تعلیمی شعبہ پرہی وار کیا گیا۔ آئے روز مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ میں اسکولوں او رکالجوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ رواں سال کے دوران اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں پر روز روز سرکاری حکم ناموں کے تحت تالا چڑھا جاتا رہا۔درس و تدریس میں مشغول طلبہ کو کلاسوں سے گھسیٹ کر قید کیا جاتا رہا، طلبہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا جاتا رہا، تاحال درجنوں طالب علم جیلوں میں مقید ہیں، گزشتہ دو برسوں کے دوران معتدبہ نو عمروں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردئے گئے، سینکڑوں کالج اور اسکول جانے والے طلباء کو جھوٹے کیسوں میں ملوث کرکے اْن کے خلاف ایف آئی آر درج کئے جاتے رہے۔ ا یسے میںنوجوانوں کی تفریح کے تعلق سے زبان کے چٹخاروں میں منفی خیال آرائیاں کر نا قوم کے ہرے زخموں پر نمک پاشی ہی قرار پاتی ہیں۔مبصرین کہتے ہیں کہ ان لن ترانیوں کے پس منظر میں گزشتہ سال کی عوامی ایجی ٹیشن ہے۔ اس کو دبانے کے لئے بے تحاشہ طاقت ، زور زبردستی کے علاوہ اور بھی بہت سارے اقدامات کئے گئے تا کہ کشمیر ی اپنے حقوق کی جنگ سے دست بردار ہوجائیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پاکستانی نڑاد ہندوستانی شہری گلوکار عدنان سمیع کا ایک فلاپ شو ڈل کنارے منعقد کیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ دور دراز کے جو پسماندہ دیہات سڑک، پانی، بجلی اور ہیلتھ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، وہاں رات میں سرکاری اہتمام سے فٹ بال مقابلوں کا اہتمام کیا جا تاہے، بڑی بڑی لائٹس لگانے کے لیے کروڑوں روپے اڑا دئے جاتے ہیںتاکہ ان میں بہ حیثیت مہمانان ِ خصوصی مدعو منسٹر اورفوجی افسران کا دل بہل جائے، حالانکہ انہی دیہات میں کسی غریب کا چولہا نہیں جلتا ، درد زہ میں مبتلا کوئی خاتون برمحل طبی امداد مہیا نہ ہونے کی بناپر بے موت مرجاتی ہے، جہاں بچوں کے اسکولوں میں چھت تک میسر نہیں ہوتی، وہاں کھیل مقابلوں کے اہتمام پر کروڑوں روپے گنوانا کیا معانی رکھتا ہے؟ پوچھا جاسکتا ہے کہ جانتے بوجھتے تعلیم سے ہماری نو خیز کلیوں کی توجہ ہٹاکر انہیں لہوو لعب میں مصروف رکھا جائے تو کیااس قوم کا مستقبل خراب ہونا طے نہیں؟ اور ہماری آئندہ ایسی نسل کہاں پروان چڑھے جو سوچنے سمجھنے والی ہو، جو اپنے حقوق کے تئیں حساسیت کا مظاہرہ کرنے والی ہو، جو اپنی انفرادیت کی رکھوالی کرنے کے ہنر سے باخبر ہو؟ بہر صورت تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں کو بڑی بڑی فوجی طاقتوں کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکی ہے، اْن میں فحاشیت، عریانیت اور شراب و شباب عام کرکے اْنہیں شکست فاش سے اس طرح دوچار کردیا گیا کہ پھر ان پر آسمان رویا نہ زمین روئی۔
خیالات کی جنگ میں شریک ہوجانا اچھی بات ہے لیکن خیالات کی جنگ کے نام پر کسی قوم کی تہذیب، تمدن اور اخلاقیات پر حملہ آور ہوجانا گھناؤنا جرم ہے۔ کشمیری قوم اپنی مخصوص تہذیب ، اخلاقی قدروں اور خدا پرستی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس قوم کی اپنی روایتیں ہیں، اپنے اصول ہیں جو دین اسلام پر اول تاآخر استوار ہیں۔ لہٰذا شراب کی حلت ہو، سیاحت کے نام پر ہمارے قومی تشخص کو اقتداری سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی چالیں ہوں ، آزاد خیالی کے عنوان سے ہمارے دینی اقدار کو ملیامیٹ کرنے کی ترکبیں ہوں، یہ سب چیزیں اہل کشمیر کا سواد اعظم مسترد کر چکا ہے اور آئندہ بھی مسترد کرے گا۔ یاد رکھئے یہ قوم سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن کوئی اْن کے عقائد اور روایات پر حملہ آور ہوجائے، یہ اس قوم کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔ان تماشوں سے مسئلہ کشمیر کی ہمالیہ جیسی حقیقت کو جھٹلانا رقص نیم بسمل کے مترادف ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہ سارا جارحانہ طرز عمل ترک کیا جائے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرکے تمام مسائل کی ماں۔۔۔ مسئلہ کشمیر۔۔۔ کو منصفانہ ، امن پرورانہ ، آبرومندانہ طریقے پر حل کرنے کے لیے خندہ پیشانی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ جتنی جلد دلی اور اس کے حمایت یافتہ مقامی حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے اْتنا ہی کشمیر سمیت برصغیر کے کروڑوں عوام کے لیے بہتر رہے گا۔