میری دھندلی یادوں میں ابھی بھی پتھروں کا وہ صاف ستھرا اور خوبصوت شہر بسا ہوا ہے جو ریاست جموں و کشمیر کا موسم سرمائی دارالحکومت جموں تھا ۔ کیسے وقت تھے، کیسی زندگی تھی جو ٹھہر ٹھہر کر رواں دواں تھی۔ جس میں کوئی افرا تفری نہیں تھی، بھگ دڑ نہ تھی، بے سکونی نہیں تھی، جموں شہر کی اُجلی اُجلی پتھریلی گلیوں اور پہاڑیوں سے محیط یہ خوبصورت شہر تو الف لیلیٰ کی کوئی داستان معلوم ہوتا تھا جہاں دیو مالائی حکایتیں حقیقت لگتی تھیں۔ ان معطر فضائوں میں یوں لگتا تھا گویا ابھی کوئی پری اپنے پر پھیلائے انسانوں کی اس بستی میں اپنا مسکن بنائے گی۔ جہاں کی فضائوں کی موتیا، گلاب اور بیلے کی سوندھی خوشبوئیں لپٹی رہتی تھیں۔ جامن، امرود، اور بیروں کی خوبصورت مہک تھی۔ یہ پھل اب بھی درختوں پر لگے ہیں، بازاروں میں آتے ہیں اور ہم کھاتے ہیں لیکن ان میں وہ خوشبو نہیں ہوتی و جموں کے ان پھلوں میں تھی۔ کچھ تو بات ہے کہ سالوں گزرنے کے بعد اب بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کی فضائیں ابدی تھیں۔ ہوش ربا تھیں، دلآویز تھیں، شاعروں نے، تاریخ دانوں نے، افسانہ نگاروں نے وادیٔ کشمیر کے حسن کے قصیدے لکھے ہیں۔ یہاں کی خوبصورت وادیاں، لہلہاتے ہریالے کھیت، سربہ فلک پہاڑیاں، سوندھی ہوائیں، بل کھاتی آبشاریں، گنگناتی ندیاں اور خوبرو پھول انسان پر سحر طاری کر دیتے ہیں اور دنیا ہی میں جنت کا احساس جاگنے لگتا ہے۔ کیا جنت اتنی خوبصورت ہو گی؟ انسان سوچتا ہے لیکن اسی ریاست کشمیر کا یہ پہاڑی علاقہ جموں کسی طرح بھی جاودانی حسن سے خالی نہیں تھا۔ ۱۹۴۷ء کے سانحے میں جموں کے دو لاکھ مسلمانوں کا قتل عام جو ۵؍۶؍ نومبر کو ہوا وہ بھی ریاست کی تاریخ پر ایک بدنما داغ ہے۔ حکمرانوں کے دامن پر ایک ایسا کلنک ہے جسے دنیا کا کوئی صابن دھو نہیں سکتا اور نہ انسانیت کا کوئی قانون معاف کر سکتا ہے۔ ۵؍ اور ۶؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو صرف دو دنوں میں جموں میں دو لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوا، جس کی تفصیل پڑھتے ہوئے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ شیخ محمد عبداللہ کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ اور اس وقت کے ہندوستان کے وزیر داخلہ سردرار ولبھ بھائی پٹیل کی جموں میں موجودگی کے دوران ۵؍ نومبر ۱۹۴۷ء کو جموں شہر اور اس کے گرد و نواح میں لائوڈ اسپیکر پر اعلان کرایا گیا کہ و مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں وہ پولیس لائن جموں میں جمع ہو جائیں۔ انہیں سرکاری حفاظت میں پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ اس یقین دہانی پر جب مسلمان اپنے اہل و عیال سمیت پولیس لائن جموں میں جمع ہوئے تو انہیں ۷۰؍ ٹرکوں میں سوار کیا گیا۔ ہر ٹرک میں تقریباً ۸۰؍ مرد و عورتیں، نوجوان لڑکے و لڑکیاں بھر دئے گئے اور ٹرک انہیں لے کر سانبہ کی طرف چل دئے جہاں انہیں ایک پہاڑی درے میں اُتار دیا گیا اور پروگرام کے مطابق سب لوگوں کو قطاروں میں کھڑا کیا گیا۔ اور خوبصورت کنواری لڑکیوں کو علٰحدہ کر کے باقی سب کو شہید کر دیا گیا جس کے بعد نوجوان لڑکیوں کو سنگھی دھڑے ، ڈوگرہ اور مہاراجہ پٹیالہ کے فویوں نے اغوا کر لیا۔ البتہ چند خوش نصیب لڑکیاں ان غنڈوں کے چغل سے آزاد ہو کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئیں۔ انہوں نے واپس آ کر جب باقی لڑکیوں پر بیتے لرزہ خیر واقعات بیان کئے جنہیں سن کر مہاتمہا گاندھی کو سخت صدمہ ہوا اور انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو سخت ڈانٹ ڈپٹ کی کہ آپ کی جموں شہر میں موجودگی میں ایسا واقعہ کیوں رونما ہوا؟ جموں شہر کی ہزاروں خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو مہاراجہ پٹیالہ و پنجابی سکھ و سنگھی دھڑے کے لوگ زبردستی اغوا کر کے لے گئے جن کا آج تک کوئی اتا پتہ دستاب نہین ہو سکا۔ البتہ ۱۹۶۰ء کے عشرہ میں راجوری خطہ میں اس علاقہ کے ایک معزز گھرانے کی بیٹی کا ایک منظوم دردناک خط خطہ میں مشتہر ہوا تھا جس کے بعض پنجابی اشعار اب تک اس خطہ میں زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ مجھے اس وقت اس خط کا صرف ایک شعر یاد ہے جو یوں ہےجنہیں ہتھیں قرآن میں کھولدی ساںاُنہیں ہتھیں میں سور پکاوندی ہاںترجمہ: یعنی جب ہاتھوں سے میں قرآن کھول کر پڑھتی تھی آج انہی ہاتھوں سے میں خنزیر پکاتی ہوں۔ جموں کے اس قتل عام و بربریت کی باگزشت جب عام ہوئی تو پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر پیدا ہو گئی۔ خاص طور پر وادی کشمیر میں اس کا سخت ردِ عمل ہوا ۔اور اس کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالے گئے ۔ جب کے اسی اثناء میں نگروٹہ کے مقام پر ایک سو کشمیری مسلمان ٹانگا بانو کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس وقت کے منتظم ریاست شیخ محمد عبداللہ بچے کھچے مسلمانوں کی حالت زار دیکھنے بذات خود جموں پہنچے تو دیکھا کہ کیمپوں میں بچی کھچی مسلمان نوجوان لڑکیاں بالکل برہنہ حالت میں ہیں۔ شیخ محمد عبداللہ کو دیکھ کر ان معصوم لڑکیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی شرم گاہوں کو چھپانے کی کوشش کی۔ شیخ صاحب جب ایک کیمپ سے باہر آ رہے تھے تو ان کی ملاقات سردار بدھ سنگھ سے ہو گئی جو چودھری غلام عباس کی بیٹی کی تلاش میں تھے۔ شیخ محمد عبداللہ نے ان کو اس کیمپ میں جانے سے روکا ۔ مگر سردار بدھ سنگھ کیمپ میں چلے گئے اور اس کا تفصیلی معائنہ کر کے چودھری غلام عباس کی بیٹی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سردار بدھ سنگھ نے جب اس بچی کو کس مپرسی کی حالت میں برہنہ دیکھا تو انہوں نے اپنی پگڑی اتار کر اسے ستر چھپانے کے لئے دی۔ سردار بدھ سنگھ نے چودھری غلام عباس کی اس بیٹی کو بعد میں سچیت گڑھ کے راستے بحفاظت پاکستان بھیجا ۔ یہ کوئی ۱۹۸۳ء کی بات ہے جب میر پور کے منگلہ کینٹ میں اس اس خاتون سے راقم کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایاکہ جموں کے اس کیمپ میں سب لڑکیوں کی حالت ناقابل بیان ہے۔ البتہ جب میں نے شیخ محمد عبداللہ کو کیمپ میں دیکھا تو میری کچھ آس بندھی کہ شاید وہ میری مدد کے لئے آئے ہیں۔ مگر افسوس کہ جو آس ان سے بندھی تھی وہ سردار بدھ سنگھ کے ذریعہ سے پوری ہوئی۔ حالانکہ میرے ابا اور شیخ محمد عبداللہ تحریک کے ابتدائی ساتھی تھے اور دونوں نے پورے آٹھ سال تک ڈوگرہ سامراج کے خلاف تحریک کو منظم کیا تھا۔ ہم ان شہیدوں کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے اس المناک سانحے میں جانوں کا نذرانہ دیا۔
محترمہ ثریا خورشیدسابق صدر آزاد کشمیر محترم کے ایچ خورشید کی اہلیہ تھیں۔