6نومبر1947جب جموں خونِ مسلم سے لال ہوا

6نومبر1947جب جموں خونِ مسلم سے لال ہوا

٭… محمد صادق جرال
6 نومبر 1947ء کا دن ریاست جموں و کشمیرکی تاریخ میں بہت ہی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ یہ دن پورے جموںو کشمیر، پاکستان اور پوری دنیا میں ان شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے،جنہوں نے نومبر کے اوائل میں اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کیں۔ اور یوں پوری دنیا کو بتایا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کس طرح نسلی اور مذہبی تعصب کا شکار ہیں۔ جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو اسلامیاں جموں و کشمیر نے بے حد خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ 19 جولائی کو مسلم کانفرنس نے ریاست کے پاکستان کیساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی۔ جموں کے مسلمانوں میں چودھری غلام عباس کی وجہ سے مسلم لیگ کے کافی اثرات تھے اور الحاق پاکستان کی قرار داد منظور ہونے کے بعد یہاں کے مسلمانوں میں کافی جوش و خروش پایا جارہا تھا۔ اس جوش و خروش کو دیکھ کر ہندو اور ڈوگرہ حکومت لرز گئی اور اس نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ چنانچہ اودھم پور ، ریاسی ، کٹھوعہ، ، رام سو، رام نگر، یانیہاورکوٹلی غرض یہ کہ ہر قصبہ کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ ہزاروں دیہاتی باشندوں کو دھوکہ اور فریب سے گھروں سے باہر نکال کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ ہزاروں عفت مآب بچیوں اور خواتین کو اغواء کیا گیا۔ یہ قتل عام اتنی منظم سازش سے ہوا کہ جموں اور سرینگر میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور یہاں تک ہوا کہ جب نومبر کے ابتدائی دنوں میں جموں میں قتل عام ہوا تو سرینگر میں کسی کو علم نہ ہو سکا۔پنجاب اور دیگر ریاستوں سے بلوائیوں کو لایا گیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے پورے صوبہ جموں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا تھا ۔
دراصل یہ سب کچھ اُس وقت کی کانگرسی حکومت کے ایماء پر ہوا اور جب آچار یہ کر پلانی جو اس وقت کانگریس کے صدر تھے نے جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ چودھری غلام عباس اور جناب اے آر سا سرکار پس دیوار زنداں تھے اور مسلم کانفرنس بد قسمتی سے انتشار کا شکار تھی قوم کو صحیح قیادت حاصل نہ تھی۔ اور ریاست کے پاکستان کے الحاق یا آزاد خود مختار رہنے کا مسئلہ پیدا ہو چکا تھا۔ جموں کے لیڈروں کو حالات پر قابو نہ تھا۔ یہ وجہ ہے کہ جب جموں جل رہا تھا تو یہ لوگ پاکستان میں آ چکے تھے اور پیش آمدہ مسائل کا اندازہ نہ کر سکے۔ جموں میں ان بحران کے دنوں میں میاں نصیر الدین صاحب اور محمد شریف ٹھیکیدار اور منشی معراج الدین احمد نے مسلمانوں کی قیادت کی۔ نوجوانوں لیڈروں میں عبدالمجید بٹ شامل تھے۔ دراصل جموں میں ہندوئوں کا مقابلہ نوجوانوں نے جس بہادری اور شجاعت سے کیا اسکی مثال نہیں ملتی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان کسی طور پر ان کے قابو میں نہیں آ رہے تو انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ اس لئے تمام مسلمان پولیس لائن گرائونڈ جموں میں پہنچ جائیں۔ اس موقع پر میاں نصیر الدین کے گورنر جموں سے مذاکرات بھی ہوئے۔ ان میں یہ طے پایا کہ جموں میں حالات سدھر جائیں تو مسلمان واپس ریاست میں آ جائینگے۔
پاکستان جانے کے فریب میں دیوانے مسلمان اپنے آبائو اجداد کی وراثتوںکو چھوڑ کر پولیس لائن جموں میں پہنچ گئے۔ اس اثناء میں 5 نومبر کو ایک قافلہ تیار کیا گیا۔ مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کٹھوعہ روڈ پر لے جایا گیا۔ یہاں مسلمان مہاجرین کی بسوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ اور ماوا کا مقام مسلمانان جموں کیلئے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم 4 ہزار افراد شامل تھے، لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔ دوسرے روز 6 نومبر کو یہ کہانی پھر دہرائی اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوں کو بٹھایا گیا اور اس روز سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقہ میں پیش آیا۔ 7 ؍نومبر کے قافلہ میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے’’نازیت‘‘کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔ جموں کے معززین کی کثیر تعداد جامع شہادت نوش فرما گئی۔ ہزاروں بچیوں کو اغواء کر لیا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 4 نومبر 1947ء کو بھارت کے نمائندے کنور دلیپ سنگھ نے مسلمانوں کے وفد کو کہا تھا کہ مسلمانوں کیلئے بہتر ہے کہ وہ جموں کو خالی کر دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ مسلمانوں نے نے اپنا وطن چھوڑنے سے صاف انکار کردیا۔جب مسلمانوں نے بھارتی نمائندے کنور دلیپ سنگھ سے پوچھا کہ کیا کانگریس کی یہی سیکولر پالیسی ہے تو انہیں کہا گیا کہ اس وقت کانگرس کی یہی پالیسی ہے۔ اس وقت تک شیخ عبداللہ نے ریاستی حکومت کے اختیارات سنبھال لئے تھے۔ مگر ستم یہ ہے کہ سرینگر میں جموں کے حالات کا کسی کو علم نہ ہونے دیا گیا، حالانکہ شیخ عبداللہ نے بھی جموں کے مسلمانوں کے تئیں سرد مہری کا ہی مظاہرہ کیا۔ بہرحال جموں میں سب کچھ بھارتی حکومت اور فرقہ پرستوں کی نگرانی میں ہوا۔ جموں کے دیہات میں جو ظلم و ستم ہوا وہ فرقہ پرستوں کی بربریت کا زندہ ثبوت ہے۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر لیا گیا تھا اور دیہات کو نذر آتش کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ جموں ، اکھنور ، راجپورہ، چینی ، ریاستی ، کٹھوعہ ، سانبہ، اودھم پور، مسلمانوں کی متقل گاہیں بن گئیں۔ یہی عمل کوٹلی ،میر پور اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات، بیر نگر، سلنی ، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں ہی شروع ہو چکاتھا۔ 20 اکتوبر 1947ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزر مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ قتل عام اتنا درد ناک اور خوفناک تھا کہ پنڈ ت جواہر لال نہرو کو کہنا پڑا کہ مجھے دلی افسوس ہے اور اس حادثہ میں حکومت ہند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ سب کچھ بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا تھا اور ایک منظم پالیسی کے مطابق یہ خونی ڈرامہ رچایا گیاتھا۔
مسئلہ کشمیر کا حل اس وقت ہی ممکن ہے جب اس مسئلہ سے جڑے تینوں فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت مل بیٹھ کر اس کا آبرو مندانہ حل تلاش کریں۔ لیکن بھارت ’’میں نہ مانوں‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت کی کوشش یہی ہے کہ اس مسئلے کو لٹکایا جائے اور اس دوران کشمیری عوام کو مجبور کر کے کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت بھارت کا حصہ بنا دیا جائے۔ گزشتہ 67 برسوں میں بھارت نے کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کیے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اٹوٹ انگ کی رٹ بھی لگائے رکھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے بین الاقوامی سطح پر خود کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائیگا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بھارت کے موقف میں تبدیلی آتی گئی۔ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن اس وقت ممکن ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان اس دیرینہ تنازعہ کو حل کیا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو اس خطہ میں امن و سلامتی اور استحکام کا امکان ممکن نہیں۔
بھارتی حکمرانوں کی غیر ذمہ دارانہ پالیسی ہی موجودہ حالات کے لیے ذمہ دار ہے۔اس ملک نے اقوام متحدہ میں اپنی ہی میں پیش کردہ قراردادوں سے راہِ فرار اختیار کر رکھا ہے۔ بھارت کے جارحانہ روئیے کے باعث دونوں ملکوںکے مابین کشیدگی کے انتہائی درجے پر جانے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔دونوں ملکوں نے معاملات کو اس نہج پر پہنچانے کا اہتمام بھی کر دیا ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول کے آر پار کنٹرول لائن پر حالت جنگ میں ہیں۔ ورکنگ بائونڈری پر اشتعال انگیزی کو بھی معمول بنا لیا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تو دونوں ایٹمی قوتوں کے مابین کشیدگی کا خاتمہ قطعاً ممکن نہیں۔یہ معاملہ ایٹمی طاقت کے استعمال پر منتج ہوا تو اس کے تباہ کن اثرات عالمی امن پر بھی پڑیں گے۔اس لئے ضروری ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرکے ممکنہ تباہ کن صورتحال سے بچنے کی کوشش کرنے میں کلیدی رول ادا کرنا چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.