شیخ محمد یوسف:’’ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں‘‘۔۔۔میر عرفان

شیخ محمد یوسف:’’ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں‘‘۔۔۔میر عرفان

اکتوبر ۲۰۱۶ء میں ایک دفعہ ہائی کورٹ سرینگر کام کے سلسلے میں جانا ہوا کیوں کہ جولائی۲۰۱۶ کے مابعد حالات نے جس طرح وادی کشمیر میں کروٹ لی اُس کا اندازہ قبل از وقت کرنا ناممکن تھا۔ ایک طرف جہاں عوام کی تحریک حق خود ارادیت کے تئیں وابستگی آسمان کو چھورہی تھی وہیں دوسری جانب حکومتی عتاب کا دبدبہ بھی اپنی انتہا پر تھا۔ عوام اپنے گمشدہ حق کی بازیابی کے لئے سڑکوں، کھلے میدانوں، کھیت کھلیانوں میں پُرامن اور منظم انداز میں مظاہرے درج کررہے تھے لیکن مقامی حکومت کے کارپرداز، انتظامیہ سے وابستہ مالک کل ، پولیس، فوج، سی آر پی ایف اور دیگر درجنوں ایجنسیاں لوگوں پراپنا قہر ڈھارہی تھی۔ جو بھی فرد بشر اپنے اس گمشدہ حق کے مطالبے پر مصر تھا اُسے یا تو اے کے سنتالیس کی گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا یا تونووارد پیلٹ گن سے اس کے جسم کے چھتڑے اُڑائے جاتے۔ نیز عوام کی کثیر تعداد کوجن میں بزرگ، نوجوان، بچے اور عورتیں شامل ہیں کو زینت زندان کردیا گیا۔ بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کا بے دریغ سہارا لے کر حکومت وقت نے کشمیر کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ بنا کسی جواز اور جرم کے لوگوں کو سالہاسال تک اس غیر انسانی قانون کے تحت قید کرنا کشمیری حکمرانوں کا خاصا رہا ہے۔بہرحال ہر گزرتے دن حکومت کی طوفان بدتمیزی نے کشمیر کی فضا کو اور مکدر کردیا۔ جماعت اسلامی جموں وکشمیر جو مسئلہ کشمیر کی اوّلین داعی تنظیم رہی ہے اور جس نے 1947ء سے لے کر تاایں دم اپنے مؤقف کو ببانگ دہل اپنی بساط کے مطابق عوام اور باہر کی دنیا کے سامنے پیش کیا اور عوام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا‘ پر حکومت کی کلہاڑی بہر حال پھر آں گری۔جماعت اسلامی سے وابستہ ارکان و وابستگان کو چن چن کر اپنے اپنے علاقوں سے گرفتار کیا گیا کیوں کہ بھارت کے متعصب میڈیا نے دو سال قبل ہی جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے خلاف  زہر اگلنا شروع کردیا تھا۔ اس طرح ایک ماحول تیار کیا گیا تاکہ جماعت اسلامی پر بہ آسانی ہاتھ ڈالا جاسکے۔ بہرحال جولائی 2016ء کے بعد کی صورتحال کے دوران حکومت نے اپنے عسکری بازو ’’جموں وکشمیر پولیس اور دیگر ایجنسیوں‘‘ کا سہارا لے کر جماعت کے خلاف نیا آپریشن شروع کردیا۔ مرکزی سطح سے لے کر حلقہ سطح تک کے کارکنان کی بڑی تعدادکو جیل کی کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ مرکز جماعت اسلامی نے اس بار اپنے کارکنان کی قانونی چارہ جوئی کے لیے باضابطہ ایک سیل قائم کی جو مقید افراد کی کیسوں کی نگرانی کرتی رہتی رہی۔ اکتوبر 2016ء میں راقم اسی سلسلے میں ہائی کورٹ سرینگر پہنچا جہاں جماعت کے بزرگ رہنما محترم شیخ محمد یوسف صاحب ساکن اقبال نگر سوپور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے کورٹ کے باہر اپنی پیشی کا انتظار کررہے تھے۔ موصوف کے ساتھ پولیس کا ایک دستہ بھی موجود تھا جو ہتھکڑی کا ایک سرہ تھامے ہوئے تھے شاید اس گمان سے کہ کہیں جماعت اسلامی کے یہ 80؍سالہ بزرگ جو مختلف عارضوں میں مبتلا ہے‘ ہائی کورٹ کی چار منزلہ عمارت سے چھلانگ مار کر فرارنہ ہو جائے ۔ اس موقعہ پر راقم نے شیخ محمد یوسف کے ساتھ ملاقات کی اور اُن کی خیر و عافیت پوچھی۔ محترم موصوف بڑے ہی اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔نہ ماتھے پر کوئی شکن اور نہ دل میں کوئی غم۔ خوشی سے میرا استقبال کیا اور دیگر بزرگوں کی خیر وعافیت دریافت کی۔ جیل کی تنہائیوں کو کاٹنے والی غذا ’تعلق باللہ‘ موصوف کا دیرینہ زادراہ رہا ہے۔ نماز، ذکر و اذکار اور تعلیم و تعلم ہی جیل کی کال کوٹھریوں کے اندر موصوف کا ساتھی رہا ہے۔ موصوف کے مطالبے پر انہیں تلخیص از تفہیم القرآن (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ) کے علاوہ دیگر اسلامی کتب فراہم کی گئیں۔
محترم شیخ محمد یوسف صاحب جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے دیرینہ کارکنان میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ضلع بارہمولہ میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے میں موصوف کا اہم رول رہا ہے۔موصوف نے اپنی زندگی کے 60؍سال جماعت اسلامی سے وابستہ ہوکر گزارے ہیں اوراس طرح تنظیمی و دعوتی میدان میں اُمرائے جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ساتھ موصوف نے کافی خدمات انجام دی ہیں۔جماعت جب جب حکومت کی طرف سے زیر عتاب رہی ، شیخ صاحب نے رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر وہ تمام مصائب و آلازم خوشی خوشی برداشت کئے جو اس کارروان کا حصہ بننے کے بعد انسان پر لازم ہوجاتے ہیں۔وقت وقت پر پولیس کی مار دھاڈ، حکومتی ظلم و تشدد اور بعض اوقات سماج میں رہ رہے اسلام مخالف عناصر کی طرف سے دھونس دباو کے زہریلے گھونٹ بھی موصوف نے پئے ہیں مگر کبھی بھی جماعت اسلامی کے مشن اور نصب العین سے بے وفائی نہیں کی۔ہمیشہ سے ہی تحریک کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اپنی بساط کے مطابق سربلندی اسلام کے لیے محو جدوجہد رہے ہیں۔موصوف تحریک آزادی کشمیر کے پرجوش سپاہی کے طور جانے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنے دو جوان لڑکوں بھی اسی راہ میں نچھاور کیا ہے۔ 2000ء میں موصوف نے اپنا پہلا جواں سال فرزند شیخ رؤف احمد اس راہ میں پیش کردیا۔25؍دسمبر 2000ء کو جب رؤف علی گڑھ سے واپس اپنے گھر آرہا تھا تو بادامی باغ سرینگر کے نزدیک بھارتی فوج نے اُن کی گاڑی روک کر انہیں گاڑی سے نیچے اُتارا۔ شیخ محمد یوسف صاحب کے بقول انہوں نے رؤف کی لاش کو دو حصوں میں حاصل کیا۔ بھارتی فوج نے رؤف کے سر کو اس کے جسم سے جداکردیا تھا جبکہ بقیہ جسم پر بھی ٹارچر کے انتہائی ہیبت ناک نشان موجود تھے۔ اسی طرح شیخ محمد یوسف کے دوسرے فرزند شیخ الطاف احمد جو کہ سب ضلع ہسپتال سوپور میں بحیثیت فارما سسٹ اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے کو 9؍جون 2015ء کو نامعلوم بندوق برداروں نے سوپور میں ہی شہید کردیا۔ شہید الطاف اپنے پیچھے تین بچے چھوڑگیا جن میں ایک لڑکا جو سب سے چھوٹا ہے شامل ہیں۔
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
شیخ محمد یوسف نے اپنے گھرانے کی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق پرورش کی تھی۔ شیخ الطاف کے اس دنیا سے چلے جانے پر شیخ محمد یوسف کا کہنا ہے کہ ’میرا بیٹا سرکاری ملازم تھا اور تیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ حاصل کرتا تھا مگر وہ ان پیسوں سے گھریلو سامان خرید کر یتیموں اور بیواوں میں تقسیم کیا کرتا تھا‘۔80؍سالہ شیخ محمد یوسف اپنے کنبے کا اب واحد کفیل تھا لیکن حکومت وقت اور اُن کے وظیفہ خواروں نے موصوف کو اپنے لیے مزید خطرہ تصور کرتے ہوئے آج چوتھی مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کردیا۔ موصوف پر پہلے ہی تین پی ایس اے لگائے جاچکے ہیں اور تینوں مرتبہ ہائی کورٹ سرینگر نے سرکار اور پولیس کے ان بے جا الزامات کو نکارتے ہوئے رہائی کے احکامات صادر کئے مگر ہر بار کی طرح پولیس نے عدالتی احکامات کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنی تانا شاہی کا ثبوت فراہم کیا۔ سوپور پولیس تھانے میں کئی ماہ قید تنہائی کاٹنے کے بعد گزشتہ روز موصوف کو بے بنیاد الزامات کے تحت ڈسٹرکٹ جیل کپواڑہ منتقل کردیاگیا اور اس طرح اسلام دشمن عناصر کے کند ذہن نے اسی دنیا میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.