شوکت ساحل
سرینگر: وادی کشمیر میں دفعہ370کی تنسیخ کے بعد سب سے بڑا جمہوری عمل منعقد ہورہا ہے ،پہلے مرحلے کے تحت سرینگر پارلیمانی نشست کے لئے13مئی کو ووٹ ڈالے گئے جبکہ دوسرے مرحلے اور ملکی سطح پر مجموعی طور پر پانچویں مرحلے کے تحت18اسمبلی حلقوں پر محیط بارہمولہ نشست پر 20مئی سوموار کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔نئی حدبندی کے بعد بارہمولہ پارلیمانی حلقے میں ووٹروں کی کل تعداد18لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔اس مرتبہ یہاں سے کل22اُمیدوار میدان میں ہیں ،جن میں نیشنل کانفرنس کے ئانب صدر عمر عبداللہ ،پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجادغنی لون ،سابق رُکن راجیہ سبھا و پی ڈی پی لیڈر میر فیاض ،تہاڑ جیل میں مقید سابق ممبراسمبلی انجینئر رشید،جموں وکشمیر نیشنلسٹ پیپلز فرنٹ کے اُمیدوار اور تہاڑ جیل میں بند علیحدگی پسند لیڈر نعیم احمدخان کے برادر منیر احمدخان اور2خواتین اُمیدوار ثریا نثار اورشفیقہ بیگم بھی شامل ہیں
عبد اللہ خاندان کے چشم وچراغ ،بزنس منیجمنٹ سے مرکزی وزیر اور وزیر اعلیٰ تک کا سفر
عبداللہ خاندان کے چشم وچراغ عمر عبداللہ اس خاندان کی تیسری نسل ہے ،جنہوں نے جموں وکشمیر کی سیاسیات میں قدم رکھ کر کم عمر ترین وزیر اعلیٰ کا تاج اپنے سر سجایا ہے ۔54سالہ عمر عبداللہ کے ”سیاسی کیریئر“ میں اُن کی خاندانی پہنچان اب بھی اُن کے سفر پر بھاری ہے ۔عمر عبداللہ کشمیر کے معروف سیاسی رہنما مرحوم شیخ محمد عبداللہ مرحوم کے پوتے ہیں اور یہ خصوصیت ان کی بنیادی شناخت تصور کی جا رہی ہے۔
شیخ محمد عبداللہ نے سیاسی سفر کا آغاز1931میں جاگیرداری نظام اور شخصی راج کے خلاف چلی تحریک سے کیا اور بلآخر تقسیم ہند کے بعد جموں وکشمیر کی سابقہ ریاست کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ ان کی موت کے بعد ان کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ جو عمرعبداللہ کے والد ہیں، سابقہ ریاست کے وزیراعلیٰ بنے۔ وہ1983کے بعد1987 اور1996 کی حکومتوں کے وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے یورپی خاتون سے شادی کی اور عمرعبداللہ9 مارچ 1970 کو راچفورڑ ایسیکس شہر میں پیدا ہوئے۔ لیکن عمر کی ابتدائی تعلیم سرینگر میں معروف عیسائی مشنری سکول برن ہال میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ شملہ کے سماور اور ممبئی کے سِڈنم بزنس کالج میں زیرِ تربیت رہے۔ انہوں نے بزنس منیجمنٹ میں بھی تربیت حاصل کی ہے۔
عمرعبداللہ کی زندگی کا بیشتر حصہ لندن، دلّی اور ممبئی میں گذرا ہے۔ عمر عبداللہ 2009میں 39برس کی عمر میںسابقہ ریاست جموں وکشمیر کے11ویں کم ترین وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔1998میں ملکی پارلیمان کے لیے انتخابات ہوئے تو عمرعبداللہ نے سرینگر پارلیمانی حلقے سے چناو¿ جیتا اورجموں وکشمیر سے کم ترین ممبر پارلیمنٹ بن گئے۔1989 میں پھر چناو¿ جیتا اور بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت میں خارجی امور کی وزارت میں شامل کیے گئے۔ نائب وزیرخارجہ کی حیثیت سے انہوں نے سعودی عرب ،امریکہ اور بعض افریقی و یورپی ممالک کا دورہ کیا۔
2001 میں جب ڈاکٹرفاروق عبداللہ کے اقتدار کی مدت اختتام کو پہنچی اور ان کے حریف مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی مقامی سیاست میں نمایاں ہونے لگیں، تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کی صدارت عمر عبداللہ کو سونپ دی۔ لیکن عمرعبداللہ کا جادو نہیں چل پایا، اور پارٹی نے2002 کے اسمبلی انتخابات میں 29نشستوں پر شکست کھائی، پارٹی کو صرف 28سیٹیں مل پائیں۔ خود عمر کو ان کے خاندانی انتخابی حلقے گاندربل سے ایک غیر معروف سیاسی ورکر نے ووٹوں کے بھاری فرق سے ہرا دیا۔تاہم وہ 2004 کے پارلیمانی انتخابات سرینگر حلقے سے جیت گئے۔
عمر کی شادی1994 میں سِکھ فرقہ سے تعلق رکھنے والی پائل نامی خاتون کے ساتھ ہوئی، جو بعد ازاں قبول اسلام کے بعد پائل عبداللہ بن گئیں۔ ان کا بڑا بیٹا شیخ ضمیر عبداللہ ہے جبکہ چھوٹا بیٹا شیخ ظاہر عبداللہ ہے۔حالیہ دنوں پارلیمانی نشست سرینگر پر ہونے والے انتخابات کی مہم کے دوران دونوں بیٹے اپنے والد اور نیشنل کانفر نس کے حق میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے نظر آئے ۔عبداللہ خاندان کی تین نسلوں نے پارلیمانی سرینگر کے لئے ووٹنگ کے روز 13مئی کو برن ہال اسکول میں قائم ہائی سیکیورٹی زون پولنگ مرکز پر ایک ساتھ ووٹ ڈال کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی ۔5جنوری 2009 کو جب جموں میں عمرعبداللہ نے جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لیا تو ان کے والد اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے نامہ نگاروں سے کہا تھا ” مجھے میرے والد شیخ محمد عبداللہ مرحوم کے الفاظ یاد آتے ہیں۔ وہ کہتے تھے یہ کانٹوں کا تاج ہے، اور مجھے (عمر کے سر پر کانٹوں کا) وہی تاج نظر آتا ہے۔‘
5اگست2019کے مرکزی حکومت کے پارلیمانی فیصلہ جات سے قبل عمر عبداللہ کو 4اور5اگست 2019کی درمیانی کو حراست میں لیا گیا اور سی آر پی سی کی دفعہ107کے تحت احتیاطی حراست میں رکھا گیا ۔ 5اگست 2019کو بھاجپا کی سرابراہی والی این ڈی اے مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرکے جموں وکشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں منقسم کیا تھا ۔اس مدت میں عمر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت24مارچ2020تک نظر بند رکھا گیا ۔عمر عبداللہ اب پارلیمانی حلقہ بارہمولہ سے انتخاب لڑ رہے ہیں ،اس نشست پر اُنہیں پیپلز کانفرنس اور دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید مین اسٹریم رہنما انجینئر رشید کیساتھ سخت مقابلہ ہے ۔
خاندان ہی سیاسی پہنچان ، علیحدگی پسند سوچ سے قومی دھارے تک کا سفر
58سالہ سجاد غنی لون کا تعلق شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ سے ہے ،ان کے”سیاسی کیر یئر“کی تاریخ میںکافی اتارچڑھاﺅ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔سجاد غنی لون کو عمر عبداللہ کی طرح ہی خاندانی سیاسی آشر واد حاصل ہے ۔سجاد غنی لون کے والدمرحوم عبد الغنی لون جموں وکشمیر کی سیاسیات میں ایک معروف نام ہے ۔
9دسمبر 1966میں پیدا ہونے والے سجاد غنی لون نے عبد الغنی لون کے دو بیٹوں میں سے چوٹھے فر زند ہیں ۔سجاد غنی لون نے ابتدائی تعلیم سرینگر میں معروف عیسائی مشنری سکول برن ہال میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے1989میں ویلز کالج آف کارڈف (یوکے) سے گریجویشن مکمل کی ۔سجاد غنی لون نے کالعدم تنظیم لبریشن فرنٹ کے بانی لیڈر امان الہ خان کی صاحبزادی عاصمہ خان سے شادی کی ۔سجاد غنی لون کے دو فرزند عدنان لون اور عمادلون ہیں ۔
سال2009کے لوک سبھا انتخابات کی خاص بات جموں وکشمیر کے حوالے سے یہ تھی کہ اس وقت انتخابی اکھاڑے میں سجاد غنی لون بھی اتر گئے تھے ،اُس وقت اُنہیں علیحدگی پسند رہنما ہی تصور کیا جاتا ہے ۔اُس وقت یہ عام تاثر پایا جارہا ہے تھا کہ انتخابی اکھاڑے میں سجاد لون کی موجودگی سے بارہمولہ نشست پرہندنواز اور علیحدگی پسند سیاست کے درمیان مقابلہ ہے۔تاہم سجاد غنی لون کو انتخابی میدان میں نیشنل کانفرنس کے امیدوار شریف الدین شارق نے شکست سے دوچار کیا تھا ۔
سجاد غنی لون کے والد عبدالغنی لون کو2002 میں عید گاہ سرینگر میں میر واعظ مولوی محمد فاروق کی برسی کے سلسلے میں منعقدہ ایک ریلی کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا تھا۔ مقتول لون ضلع کپوارہ کے ہی پشتینی باشندہ تھے اور انہوں نے70 کی دہائی میں پیپلز کانفرنس قائم کرلی تھی جس کے پرچم تلے وہ الیکشن لڑتے تھے۔ مسلح شورش سے قبل وہ جموں وکشمیر کی حکومت میں کافی دیر تک تعلیم کے وزیر بھی رہے۔ بعد ازاں انہوں نے1989 میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی علیحدگی پسند تحریک میں شمولیت کرلی اور حریت کانفرنس کی مجلس عاملہ کے رکن بن گئے۔
عبدالغنی لون کی موت کے بعد ان کے دونوں بیٹوں سجاد لون اور بلال لون نے بھی علیحدگی پسند سیاست کو ہی اپنایا ۔تاہم سجاد لون 2002 میں متنازعہ بن گئے کیونکہ سخت گیر علیحدگی پسند رہنمامرحوم سید علی گیلانی نے ان پر الزام عائد کیا کہ اسمبلی انتخابات میں انہوں نے اپنی طرف سے بالواسطہ چناو لڑنے کے لئے ’پراکسی امیدواروں‘ کو اتارا تھا۔ اس تنازعہ کے بعد دونوں بھائیوں کے درمیان سیاسی کشیدگی پیدا ہوگئی اور پیپلز کانفرنس عملاً دو حصوں میں بٹ گئی۔ بعدازاں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کے بعد سجاد لون نے ’قابل حصول وطنیت‘ کے عنوان سے ایک ’وڑن ڈاکومنٹ‘ تحریر کیا، جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھاکہ ان کے اور بلال لون کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں۔ لیکن مقتول عبدالغنی لون کی بیٹی شبنم لون کے ساتھ دونوں کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ میں کئی سال سے وکالت کر رہی شبنم لون نے2008 کپوارہ سے اسمبلی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو سجاد غنی لون نے بائیکاٹ کی کال دی۔ تاہم انہوں نے الیکشن کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ، ’بائیکاٹ کی کال ناکام رہی، اور لوگوں نے ووٹ ڈالے‘۔2009کے پارلیمانی انتخابات میں سجاد لون دراصل اپنے والد کے ہی ووٹ بینک پر تکیہ کررہے تھے۔
سجاد غنی لون کے والد مقتول عبدالغنی لون کپوارہ میں وسیع اثر ورسوخ رکھتے تھے، لیکن یہ خطہ نیشنل کانفرنس کا روایتی ووٹ بینک کہلاتا رہاہے۔ سجاد غنی لون نے اپنے والد مرحوم کی پارٹی پیپلز کانفرنس جموں وکشمیر کے چیرمین ہیں ۔2014کے اسمبلی انتخابات میں سجاد غنی لون نے ہندوارہ اسمبلی حلقے سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی ۔اس طرح وہ علیحدگی پسند سوچ کیساتھ جموں وکشمیر کی اسمبلی تک پہنچے ۔تاہم ان پر الزام تھا کہ وہ بھاجپا کی حمایت سے کامیاب ہوئے۔انہوں نے 5ہزار فرق سے کامیابی حاصل کی تھی ۔سجاد غنی لون پی ڈی پی ۔بھاجپا مخلوط حکومت میں کابینہ وزیر بھی رہ چکے ہیں ۔
ماور لنگیٹ ہندوارہ کا ایک عام کشمیری ،تہاڑجیل سے پارلیمانی الیکشن لڑنے والے پہلے سیاستدان
ماور لنگیٹ ہندوارہ سے تعلق رکھنے والے56سالہ شیخ عبد الرشید المعروف انجینئر رشید ایک عام کشمیری ہیں ،جنہوں نے سیاست کے میدان میں آکر تجربہ کار سیاستدان کو شکست سے دوچار کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔انجینئر رشید19اگست1967میں ایک متوسطہ گھرانے میں پیدا ہوئے شیخ عبدالرشید پیشے سے انجینئر ہیں ،اس لئے وہ سیاست میں انجینئر رشید سے معروف ہوئے ۔ وہ جموں و کشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے بانی اور ’سرپرست‘ہیں۔
انجینئر رشید نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر باضابطہ طور پر سیاست میں قدم رکھا۔وہ سال2000میں اُس وقت سیاسی منظر نامہ میں شامل ہوئے ،جب انہوں نے مبینہ جبری مشقت کے خلاف ایک تحریک چلائی ۔انجینئر رشید کو عبد الغنی لون کا قریبی ساتھی تصور کیا جارہا ہے ۔سال2005 میں انجینئر رشید کو ایس او جی نے سری نگر میں عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد اسے تین ماہ اور17 دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ان پر ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام لگایا گیا۔ بعد ازاں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سری نگر نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کے خلاف تمام الزامات کو خارج کر دیا۔ اپنی رہائی کے لئے انجینئر رشید کو مال ۔مویشی اور باپ کی جائیداد فروخت کرکے 3لاکھ روپے زر ضمانت کے طور پر ادا کرنی پڑی تھی ۔
متنازعہ بیانات سے شہرت پانے والے انجینئر رشید سال2008میںنیشنل کانفرنس کے امیدوار اور تجربہ کار سیاستدان شریف الدین شارق اور پی ڈی پی امیدوارمحمد سلطان پنڈت پوری کو بھاری ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر سب کو حیران کیا تھا ۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں انجینئر رشید نے ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اپنی مہم میں علیحدگی پسندی اور ترقی کے موضوعات کو ملا کر دوبارہ کامیابی حاصل کی۔وہ ممبر اسمبلی ہونے کے باوجود رائے شماری کا مطالبہ کرتے رہے ۔تاہم انجینئر رشید کا سیاسی کیریئر مختلف تنازعات کی وجہ سے قابل توجہ رہا۔2015 انجینئر رشید پر جموں و کشمیر اسمبلی کے اندر بی جے پی کے قانون سازوں نے سری نگر کے ایم ایل اے ہاسٹل میں مبینہ بیف پارٹی دینے پر حملہ کیا تھا۔اسی سال انہوں نے سری نگر کے پرتاپ پارک میں جموں و کشمیر کا جھنڈا لہرایا اور بی جے پی کے’ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان‘ کے نعرے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 7جون کو ریاستی پرچم کے دن کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا۔
انجینئر رشید نے اپنے سیاسی سفر کے دوران نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سے اپنی دوری برقرار رکھی، وہ سجاد کے مخالف بن گئے، ان کے درمیان اب تکرار برقرار ہے ۔ دو مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے انجینئرعبد الرشید کو منی لانڈرنگ کے ایک مبینہ کیس میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے کئی بار طلب کیا تھا اور آخر کار اسے10 اگست2019 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام سے متعلق ایکٹ ( یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، وہ 2019سے دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید ہے۔انجینئر رشید کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے ، وہ دہلی کی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے۔سال2019کے پارلیمانی انتخابات میں انجینئر رشید نے حصہ لیا اور بارہمولہ نشست کے لئے الیکشن لڑا ۔انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے تجربہ کار سیاستدانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا ۔وہ پارلیمانی انتخابات2024کے لئے پارلیمانی نشست بارہمولہ سے الیکشن لڑ نے جارہے ہیں ۔وہ یہ الیکشن لڑنے والے پہلے مین اسٹریم ہیں ،جو جیل سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔انجینئر رشید کے فر زندابرار اور اسرار رشید اپنے والد کے حق میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ابرار رشید نے ایک عوامی ریلی میں بتایا کہ عوامی منڈیٹ ،اُنکے والد کی رہائی کا پروانہ ثابت ہو گا ۔انجینئر رشید کو کشمیر کی سیاست میں ملنگ سیاستدان سے تعبیر کیا جارہا ہے ،حریف سیاستدان اُنہیں ڈرامہ باز قرار دے رہے ہیں ۔