ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کی بارہمولہ پارلیمانی نشست کے لئے تین روز کے بعدانتخابات ہونے جارہے ہیں ۔یہ حلقہ انتخاب اس لئے دلچسپ ہونے جارہا ہے کیونکہ اس میں تین اہم اُمیدوار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ ،پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون اور عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئررشیدخاص اُمیدوار ہیں، جو فی الوقت تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔اس پارلیمانی انتخاب میں آج کی تاریخ میںتکونی مقابلہ نظر آرہا ہے کیونکہ چند روز قبل اس حلقہ انتخاب میں انجینئر رشیدکے فرزند ابرار رشید اچانک عوامی حلقوں میں نمودار ہوئے اور ان کے جلسوں اور روڑ شوزمیں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد دیکھنے کو ملی، جو انتہائی غور طلب بات ہے،کہ آخر کس بنیاد پر اس گمنام نوجوان کو اس قدر عوامی سپورٹ حاصل ہوا ۔اس انتخابی دنگل کے بیچ ایک اور سیاسی بحث نے گزشتہ روزجنم لیا جب جماعت اسلامی کے سابق امیر اور پینل کے سربراہ غلام قادروانی نے ایک پرس کانفرنس میں کہا کہ جموں کشمیر جماعت اسلامی آئندہ اسمبلی انتخابات میں شرکت کرنے کے لئے تیار ہے، اگر اُن پر لگی پابندی مرکزی سرکار ہٹانےکے لئے راضی ہوتی ہے۔ان کا کہناتھا کہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کبھی بھی بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھی ،جبکہ جماعت جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے ۔
انتخابی بخار کے بیچ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سرینگر وارد ہوئے ۔ان کایہ دورہ وادی انتہائی اہم مانا جاتا ہے۔وزیر داخلہ وادی میں پارٹی ورکروں کے ساتھ ساتھ چند عوامی اور سیاسی وفودکے ساتھ ملاقات کریں گے۔وزیر داخلہ کا وادی دورہ نہ صرف سیکیورٹی اعتبار سے اہم مانا جاتا ہے بلکہ وہ اپنے ہمدرد سیاسی ساتھی لیڈران کو بھی مشکلات میں دیکھ کر اُن کی حوصلہ افزائی کریں گے تاکہ اُن کی ناراضگی ختم ہو جائے ۔ کیا وزیر داخلہ اپنے ہم خیال ساتھیوں کو منانے میں کامیاب ہوں گے جو آنے والے اسمبلی انتخابات میں اُن کے لئے انتہائی اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔
تاہم مرکزی حکومت اور ملک کے پالیسی سازوں کو جموں وکشمیر میں جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھانے کے لئے ایک سازگار ماحول بنانا چاہیے ۔اس کے لئے ان طاقتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ،جو ماضی میں جمہوری عمل سے دور رہے اوراب جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہو ئے آج انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے حامی بھر رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اُنہیں پشت بہ دیوار کرکے سخت گیر کھاتے میں ڈال دیا جائے ۔جمہوریت کا تو یہی حسن ہے کہ وہ تشدد پر آمادہ اشخاص یا گروپوں کو اپناتی ہے ،تاکہ قیام امن کو یقینی بنایا جاسکے ۔مزاحمت اور مذاکرات میں سے سب سے بہترین راستہ مذاکرات کا ہوتا ہے ۔مفاہمتی عمل کوجموں وکشمیر خاص طور پر وادی کشمیر میں فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ،تاکہ مفاد پرست عناصر کوالگ تھلگ کیا جاسکے ۔نوجوانوں کی جمہوری عمل میں شرکت کو بھی جیت ،کامیابی یا ناکامی کے سانچے میں ڈالنے کی بجائے مثبت انداز میں اپنا نے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ نوجوان ہی قوم کا مستقبل اور ترقی وامن کے ضامن ہیں ۔