رائف حماد: علم و استقامت کا پیکر جمیل

رائف حماد ایک ہونہار ، باصلاحیت، اور دور بین نوجوان تھے،۔تحریک کشمیر کے لیے دن رات سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والا یہ نوجوان گزشتہ سال ایک موذی مرض کی وجہ سے کم عمری میں ہی اللہ کو پیارے ہوئے۔ اپنے اس ہونہار بیٹے کی مہد سے لحد تک کے سفر کا خاکہ مرحوم کے والد محترم اشرف حماد صاحب نے اس مضمون میں ایمان کو مضبوطی بخشنے والے خیالات کے ساتھ کھینچا ہے۔

رائف حماد: علم و استقامت کا پیکر جمیل

اشرف حماد :
’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا اپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونی والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی۔ پھر وہ بھس بن کررہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔یہ دنیا کی زندگی ایک مکر و فریب کے نیتٹ ورک کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے اللہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ کوئی ایسی مصیبت نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہواور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے کتاب یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔‘‘(، الحدید، 19- (23
کوئی ایسی مصیبت نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلےہی کتاب یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے” ایسا کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے بہت آسان کام ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ جو کچھ بھی نقصان ہمیں ہو ہم اس پر دل شکستہ نہ ہوں اور جو کچھ اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے اس پر ہم فخر نہ کریں۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ہے جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور غرور کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔اس کائنات میں جو بھی واقعہ پیش آتا ہے، وہ اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ اللہ نے پہلے سے لکھ دیا ہے۔ اور اس کائنات کے منصوبے اور نقشے میں متعین و محسوب ہے۔ اس میں محض قسمت و اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس پوری کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل اور شامل علم کے ذریعے ایسا کر لیا ہے۔ اور بہت ہی تفصیل کے ساتھ سب کچھ قلم بند کردیا ہے، یہ اللہ کے علم میں تھا۔ اللہ کے علم میں کوئی ماضی، حال اور مستقبل کی قید نہیں ہے۔ زمان و مکان کے فاصلے اور حدیں اللہ کے علم پر حاوی نہیں ہیں،یہ تو ہم اپنے محدود علم کے ذریعے ان چیزوں کواس طرح زمان و مکان کے قید میں دیکھتے ہیں۔ ہم تو ان حدود و قیود کے بغیر نہیں دیکھ سکتے۔ پھر ہم حقیقت مطلقہ کا ادراک ہی نہیں کر سکتے، ہاں بعض اوقات انسانوں کی قوت مدرکہ کو ایک ایسی چمک حاصل ہو جاتی ہے۔ جس وقت ہماری روح حقیقت مطلقہ سے جڑجاے، ہم چیزوں کی حقیقت کو اس عادی طریقے سے جان سکتے ہیں یعنی بذریعہ حواس، رہا اللہ تعالیٰ جو حقیقت مطلقہ ہے اور وہ اس کائنات کی ہر چیز کو بلا حدود و قیود جانتا ہے۔ یہ کائنات اور اس کے اندر واقعات اپنی آغاز سے انتہا تک اللہ کے علم میں ہیں۔ یہ علم مطلق ہے اور بلا حدودوقیود ہے۔ اور اللہ کے نقشے میں ہر ایک چیز اور واقعہ کا ایک مقام ہے جو اللہ کے علم میں ہے، لہٰذا ہر واقعہ جسے انسان خیر یا شر سمجھتا ہے، زمین پر واقع ہوتا ہے۔ اور انسانوں کی زندگیوں میں وہ پیش آتا ہے، یہ اللہ کی کتاب میں ثبت ہے۔ اس حقیقت کا فائدہ یہ ہے کہ ایک انسان جسے اس دنیا کے واقعات پر خوشی ہوتی ہے یا پریشانی ہوتی ہے، وہ اسے من جانب اللہ سمجھے۔ اور اس دنیا میں سکون و اطمینان سے زندگی بسر کرے۔ اگر کوئی ناگوار چیز دیکھے تو حسرتوں سے اپنے آپ کو فنا نہ کردے اور اگر کوئی فرحت بخش واقعہ دیکھے تو آپے سے باہر نہ ھو جائے اور یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔
سلسلہ روز و شب کی اس نقش گہہ حادثات میں 14 اکتوبر 2017 کو ہمارے بڑے صاحب زادے رائف حماد کا یوم وصال تھا۔ گذشتہ برس یعنی 14 اکتوبر، 2016 جمعہ کے روز ٹھیک ڈیڑھ بجے جب اکثر مسجدوں میں نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو پیارے ہوئے۔ میں بھی نماز ادا کرنے گیا تھا۔ میں سلام پھیرنے کے فورا بعد واپس آیا اور رائف بیٹا اپنے محبوب حقیقی سے واصل ہو رہا تھا۔ بہرحال اس وصال میں مخل ہونے کا کسے یارا تھا۔ امانت داری کا یہ فریضہ انجام پذیر ہوچکا تھا۔
اکتوبر کی 11 تاریخ 1987 کو ہمارا رشتہ ازدواج انجام بخیر ہوا تھا۔ شادی کے بعد 4 سال تک ہمارے یہاں کوئی اولاد نرینہ نہ ہوئی۔ اللہ کی مرضی تھی۔ لیکن ہم بھی مایوس نہ ہوئے۔ ایسے میں ایک مختصر مدت کی سنت یوسفی کے دوران پوچھنے والوں نے دیگر باتوں کے علاوہ ہم سے استفسار کیا کہ ’’تیرے کتنے بچے ہیں؟‘‘ میں نے نفی میں جواب دیا تو دوسرا بولا، ” جلدی کیا ہے، آزادی ہوجائے گی تب بچے پیدا کرے گا۔‘‘! ان کا یہ طنز زہر آلود تھا جسے ہم نے بادل نخواستہ برداشت کیا تھا۔ بہر حال یہ مئی 1990ٰء کا آخری ہفتہ تھا۔ اور اللہ کرنا ایسا ہوا کہ آئیندہ سال ستمبر 1991کے پہلے ہفتہ میں ہمارے یہاں اللہ کے فضل و کرم سے بیٹا تولد ہوا۔۔۔۔۔۔ جی ہاں رائف حماد۔
رائف حماد کا ہم نے پہلے شرجیل حماد نام رکھا تھا لیکن بعد میں ہم نے ان کا نام رائف حماد رکھا۔ جی ہاں مصر کے بڑے معروف جراتمند دانشور احمد رائف کے نام نامی سے متاثر ہوکر۔ رائف بیٹے کی ابتدائی تعلیم محمدیہ انسٹی چیوشن شوپیان میں شروع ہوئی۔ لیکن مارچ 2000ء میں ناظم تعلیم کے حکمنامہ کے تحت مجھے ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے شعبہ ثقافت میں تعینات کیا گیا اس لیے ہم سرینگر میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا داخلہ ہم نے سکالرس سکول میں کیا۔
رائف حماد شروع ہی سے اللہ کے فضل سے ذہین ہی نہیں متین بھی تھے، ہمارے خاندان میں سب لوگ کہتے تھے کہ یہ بزرگوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ ایک روز ہم سکالرس سکول بڈشاہ نگر سے واپس جواہر نگر آرہے تھے یہاں فٹ برج کراس کرتے ہی فورسس کا بنکر آتا تھا۔ جب ہم بنکر کے پاس پہنچے تو رائف بیٹے کی نظر سائین بورڈ پر پڑی جس پر بورڈر سیکیورٹی فورس تحریر تھا۔ اس نے فوری طور کہا: “ابو حضور اگر یہ بارڈر سیکیورٹی فورس ہیں تو یہ بارڈر پر کیوں نہیں ہیں یہاں کیوں ہیں۔” میں لاجواب سا ہوگیا۔ میں کیا جواب دیتا۔ وہ ان ایام میں تیسری کلاس کے متعلم تھے۔ اس کے علاوہ اسی کلاس میں ان کو سائنس کا پیریاڈک ٹیبل ازبر تھا۔ قران بھی پڑھنا آتا تھا۔ اس میں سکول کے اساتذہ کا بھی نمایاں رول تھا۔ سکالرس سکول کے بعد آپ نے اقبال انسٹی چیوٹ میں گیارویں جماعت میں داخلہ لیا۔ داخلہ اس لیے ملا کہ 10ویں جماعت نمایاں نمبرات سے پاس کی تھی۔ یہاں سے آپ نے بارویں جماعت بھی نمایاں نمبرات سے پاس کی۔ ہم لوگ چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنے۔ وہ خود جرنلسٹ بننا چاہتا تھا اور قدرت چاہتی تھی کہ وہ کچھ اور بنے۔ بہرحال انہوں نے اینٹرنس دیا۔ اور ان ہی ایام میں یہاں مزاحمتی سلسلہ تیز ہوا۔ ہم کچھ دنوں کے لیے آبائی گھر شوپیان آئے۔ سخت ہڑتالی سلسلہ میں نتائج برامد ہوئے۔ یہاں اخبار بھی نہیں آتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا انہیں ایم بی بی ایس میں نہیں بلکہ ڈی ایف او ٹریننگ میں نام آیا تھا لیکن سخت ہڑتال کی وجہ وہ یہ مس کر گئے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ بایو ٹیکنالوجی میں بی ٹیک کریں گے تو ہم نے کہا ٹھیک ہے ہماری جانب سے بھی کوئی اعتراض نہیں ۔ چناں چہ اگلے برس انہوں نے جالندھر کی انجیئنرنگ یونیورسٹی،” لولی پروفیشنل یونیورسٹی‘‘ میں داخلہ لیا۔ اس روز میں اور میرا بھانجا جاسم شبیر ان کے ساتھ تھے۔ وہاں آپ نے ٹیسٹ دیا اور کوالیفائی کیا۔ بلکہ ایسا کوالیفائے کیا کہ 30 ہزار روپے کا سالانہ وظیفہ بھی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ پہلے سال وہ ہاسٹل میں مقیم رہے۔ لیکن اگلے برس آپ اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ ایک نجی اپارٹمنٹ میں مقیم ہو گئے۔ ہم ان کے پاس موسم سرما میں گئے۔ انہوں نے ایک ریٹائرڈ فوجی میجر کے یہاں ان کی دوسری منزل کرائے پر لی تھی۔ میجر ایک قابل اور ہنس مکھ سردار تھے۔ وہ ہم سے جب ملے تو انہوں نے رائف حماد کی بڑی تعریفیں کی۔ اور کہا ’’رائف بیٹے اور ان کے ساتھی بڑے صالح ہیں اسی لیے ہم نے ان کے گھر میں جگہ دی۔ اللہ کے فضل سے یہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ یونیورسٹی میں بھی یہ دیگر مسلم طلبہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مقامی امام کے ساتھ وہاں ایک غیر آباد مسجد کو آباد کیا اور بعد میں وہاں جمعہ کی نماز باضابطہ ہونے لگی۔ اس طرح وہ اپنی نصابی تعلیم میں بھی بڑے مستعد اور فعال رہے۔2014 میں ساری وادئ کشمیر غرقاب ہوئی۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی وہ خاصے سر گرم رہے۔ انہوں نے دیگر ہم علموں کے ساتھ وہاں پر امدادی کام کیا اور یہاں متاثرین تک وہ مدد پہنچائی۔ حالاںکہ ہم خود سیلاب سے متاثر ہوئے تھے لیکن اس کا اثر انہوں نے نظر انداز کیا اور باقی سیلاب زدگان کے لیے سرگرم ہوئے۔ اتنا ہی نہیں انہوں وہاں سے (پنجاب سے) کلورین کیمکل کی خاصی مقدار کینوں میں لائی۔ سرینگر میں امدادی اداروں کے سپرد کی جسکا انہوں نے مناسب مصرف کیا۔ ان کی رحلت کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کسی نجی ادارے کے فعال رکن تھے۔ مگر اس غیر سرکاری ادارے نے بعد میں ہم سے کوئی رابطہ نہ کیا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے بھی سرگرم و فعال کار پرداز تھے۔
آپ متین و ذہین کے علاوہ سخت نفاست پسند تھے۔ صفائی و ندرت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ لباس بھی خاص انداز یعنی برینڈڈ پہنتے تھے۔ خوش بو اور پاکیزگی سے خاص لگاو تھا۔ جمعہ کی نماز کے لیےقیمتی عطر استعمال کرتے تھے۔ بوٹ بھی برینڈڈ استعمال کرتے تھے۔ اچھا پہناوا ان کی بچپن والی عادت تھی۔ کھانوں میں بھی وہ نفاست پسند تھے۔ تیز اور مسالہ دار کھانے ان کی کمزوری تھی۔ لیکن بھاری بھر کھانے کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ کبھی روکھی سوکھی پر بھی گذارہ کرتے تھے۔ طعام کی طرح کلام میں بھی نفاست پسندی کے قائل تھے۔ وہ بچپن سے کم گو تھے۔ کبھی فضول اور غیر ضروری باتیں نہیں کرتے تھے۔ وہ دو کانوں سے سنتے تھے اور ایک دہان سے بولتےتھے۔ جب بولتے تھے تو ان کلام میں غضب کا ربط ہوتاتھا۔ کلام میں ربط کے علاوہ لاجک بھی ہوتا تھا۔ مخالف کو قائل کرنے میں انہیں بہت کمال حاصل تھا۔ جب بولتے تھے تو مسکراہٹ آپ کے لبوں پر رقصان ہوتی تھی۔ اسی لیے سامنے والا متاثر ہوتا تھا۔ یہی وجہ کہ خطرناک مخالف بھی ان کا قائل ہوتا تھا۔ وہ پرنخوت یا متکبر نہیں تھے۔ ہر بات کا جواب خندہ پیشانی سے دیتے تھے۔ وہ مطالعہ کے بھی بہت رسیا تھے۔ نصابی کتابوں کے علاوہ وہ غیر نصابی کتابیں بھی تواتر سے پڑھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نویں اور دسویں جماعت میں انہوں نے ترکیہ کے معروف اسلامی مصنف و مفکر ہارون یحییٰ کی بیشتر کتابیں مطالعہ کی تھیں۔ بعد میں انہوں نے مولانا مودودیؒ، سید قطب، محمد قطب، یوسف القرضاوی، نوم چومسکی، ایڈورڈ سیاد، الیسٹر لیمب وغیرہ کی کتب کا مطالعہ کیا۔ ایل پی یو میں انہوں نے تفہیم القران اور سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القران اور محمد اسد کی تفسیر مسیج آف قران کا باضابطہ مطالعہ کیا۔ مجھے بھی سید قطب کی ڈاون لوڈ شدہ انگریزی تفسیر دی۔ یہاں پر آپ نے کشمیر کی تاریخ اور معاصر لٹریچر کا بھی بھر پور مطالعہ کیا اور پورے کشمیر کانفلیکٹ پر علمی طور دسترس حاصل کی۔ یہی وجہ ہے ان میں یک گونہ تدبر و تفکر پیدا ہوا۔ وہ میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر انتہائی سرگرم تھے۔ تحریک کشمیر کے بھی دل سے حمایتی تھے۔ وہ کشمیر کے ایک سرکردہ قائد کا ٹویٹر پر ایک پیج بھی چلاتے تھے۔ اس کا بھی مجھے بعد میں علم ہوا۔ یہ الگ بات ہے علیٰحدگی پسند قائدین کو ان کی وفات پر دو بول کہنے کی توفیق بھی نہ ہوئی۔ ان کی کتنی اوصاف ہم بیاں کریں، اس کے لیے ایک کتاب کی ضخامت چاہیے۔ بحیثیت مجموعی ان میں قیادت و سیادت کی جملہ صفات موجود تھیں۔ ان میں تدبر، تفکر اور ذہانت و فطانت بدرجہ اتم موجود تھی مگر اللہ تبارک و تعلٰی کو کچھ اور ہی منظور تھا لہٰذا اللہ نے ان کو اپنے پاس ہی بلایا۔
لگ بھگ 4 سال سے زائد عرصہ ایل پی یو میں گزار کر وہ اگست 2015 میں بی ٹیک مکمل کرکے گھر واپس آئے۔ آتے ہی انہوں نے ایک سعادت مند بیٹے کے باوصف گھر کے معاملات میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ مگر افسوس یہ سب جلد ہی ایک سراب ثابت ہوا۔ صرف 3 مہینے کے بعد انہیں گلے کی تکلیف ہوئی۔ باہر ورم کی کیفیت ظاہر ہوئی۔ وہ سرینگر ایک معالج کے پاس گئے۔ انہوں ضروی متعلقہ ٹیسٹ تجویز کیے جو انتہائی دھماکہ خیز ثابت ہوئے ۔ جی ہاں سرطان جیسا مانسٹر مرض ان کو لاحق ہوگیا تھا۔ یہ مرض نہ صرف انکے لیے، یا گھروالوں کے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے اعصاب شکن اور حوصلہ شکن تھا۔ شہر سے واپسی کے بعد وہ نانی ہال میں تھے۔ اگلے روز جب میں ان کے پاس گیا تو ان کے حوصلہ میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آئی تھی۔ میں نے معاملہ اللہ کے سپرد کیا تھا، لہذٰا میں نے ان سے کہا کہ آپ گھبرا تو نہیں گئے، موت کے فیصلے آسمانوں میں ہوتے ہیں زمین پر نہیں، آپ نے حسب عادت دل آویز مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا، ” نہیں ابو حضور، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں گھبراوں۔ آپ اطمینان رکھیں۔” بقول علامہ اقبال رح
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھا یا کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی !
رائف حماد اس سے قبل خاصے صحت مند تھے۔ معمولی موسمی بخار بھی ان کو چھو کر نہیں جاتا تھا۔ بچپن میں کبھی کبھار ان کی طبیعت بگڑ جاتی تھی۔ پھر کسی مقامی ڈاکٹرکے علاج و معالجہ سے ٹھیک ہو جاتے تھے۔ لڑکپن اور جوانی میں یہ معاملہ بھی نہ ہوا۔ صرف ایک بار یونیورسٹی ہاسٹل میں غیر معیاری غذا کی وجہ سے ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تھی تو اس کے بعد انہوں نے اقامت تبدیل کی اور پھر ایسی نوبت کبھی نہ آئی۔ لیکن بی ٹیک مکمل کرنے کے بعد جب وہ گھر آئے تو تین ماہ کے بعد ان کے گلے میں سوجن پیدا ہوئی جو آناناً فاناً سرطان کا موذی مرض کے دھماکہ خیز اور المناک اعلان بنکر ظاہر ہوئی۔ اس ہیبت ناک اعلان سے ہم سب جیسے سکتے میں آ گئے تھے لیکن معاملہ اللہ کو سپرد کرکے ہم یعنی (میں، ان والدہ ماجدہ، ان کے ماموں جان خورشید احمد، ممانی حسینہ جی اور ان بیٹا عثمان خورشید) تیسرے روز دہلی کے ایک معروف انکالوجی اسپتال میں تھے۔ اور علاج و معالجہ اگلے روز ہی شروع ہوا۔ علاج ومعالجہ بھی درد کی طرح لمبا چوڑا اور سخت صبر آزما اور حوصلہ آزما تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ پر انتہائی زبردست امید تھی۔ اس لیے ہم نے کسی بھی صورت میں حوصلہ نہ ہارا ۔ اور ہم سب سے زیادہ رائف بیٹا پر امید تھے۔ ان کا ایمان و ایقان واقعی قابل دید تھا۔ کینسر کی طرح اس کا ٹریٹ مینٹ بھی انتہائی صبر آزما اور اعصاب شکن ہوتا ہے لیکن کیا مجال کہ انہوں نے کبھی اف کیا ہو۔ شکوہ کیا ہو۔ حوصلہ ہارا ہو۔ تیزی کی ہو۔ جذبات کا ہیجانی اظہار کیا ہو۔ علاج و معالجہ جنوری سے مارچ تک چلا اور ٹیسٹ ٹھیک بھی آئے۔ پھر ہم ایک مہینہ جموں میں رہے۔ پہلے ریڈیو تھرپی کا صبر آزما دور چلا تھا اور اب کیمو تھرپی کا بھی ایسا ہی دور چلا جس میں پانچ روز و شب اسپتال میں انہیں ایڈمٹ رہنا پڑتا تھا۔ بہر طور یہ کٹھن اور طویل دور بھی مکمل ہوا۔ اور ضروری ٹیسٹ ہوئے جو ٹھیک آئے۔ اور معالجوں کے مشورے کے بعد ہم گھر آئے۔ کیونکہ ان کے بقول وہ صحت یاب ہوا تھا اور اب 3 ماہ کے بعد ہمیں چیک اپ کے لیے جانا تھا۔ لہٰذا ہم گھر واپس آے۔ وہ اب ٹھیک تھا۔
یہ عرصہ گھر پر گذار کر ہم چیک اپ کے لیے دہلی گئے۔ اس بار ہم صرف دو لوگ اس کے ساتھ گئے تھے۔ کیونکہ چیک اپ کے لیے ہی جانا تھا۔ بیچ میں اتوار آیا تھا اس لیے ہم تیسرے روز داکٹر کے پاس گئے۔ انہوں نے ایم آر آئی کرنے کے لیے کہا۔ جو ہم نے کیا لیکن رپورٹ تسلی بخش نہ تھی۔ ڈاکٹر نے پیٹ سکین کرنے کو کہا اور جب تیسرے روز اس کی رپورٹ حسب معمول رائف صاحب نے دیکھی کیونکہ روز اول سے وہ پہلے خود ٹیسٹ ملاحظہ کرتے تھے پھر ہماری جانب بڑھاتے تھے۔ ٹیسٹ کو دیکھتے ہی آپ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ ورنہ ہر بار صبر کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس بار میں نے دیکھا انہوں نے سرد آہ بھر لی۔ اور بس۔ کوئی شکوہ نہیں۔ کوئی رونا دھونا نہیں۔ وہ واقعی صبر عزیمت کا ہمالیہ تھا۔ حالاں کہ معروف کشمیری نژاد انگریزی شاعر اور خود کینسر کے ویکٹم آغا شاہد نے اس عارضہ کو ’’نصف انچ ہمالیہ(ہاف انچ ہمالہ)‘‘ کہا ہے۔ لیکن رائف بیٹا نے اس نصف انچ عارضہ کے لیے بلا کسی مبالغہ کے پورے کوہ ہمالہ سے بھی بلند صبر کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ معولی سردرد کے موقعہ پر اچھے اچھوں کا توازن بگڑ جاتا ہے مگر اس موقعہ پر بھی وہ قنوطیت و حوصلہ شکنی کے شکار نہ ہوئے۔ اس کے بعد پھر ٹریٹ منٹ چلا مگر یہ لاحاصل عمل ثابت ہوا۔ وہ روز بروز نحیف و لاغر ہوتے گئے۔ مرض میں تفاوت کے بجاے اضافہ وسعت ہی پیدا ہوئی۔ لیکن نہ انہوں نے امید کا دامن چھوڑا اور نہ ہم نے۔ آخری لمحات تک علاج و معالجہ چلتا رہا۔ نہ وہ نا امید رہے نہ ہم۔ آخری سانس تک تھرپی چلتی رہی۔ لیکن موت کا کوئی کیا علاج کرے۔ اور وہ صبر سکون سے، باتیں کرتے ہوئے اور محبوب حقیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے ملے۔ لیکن ان کی عزیمت، توکل براللہ، ان کی برداشت، ایمان، ایقان اور اللہ پر کامل بھروسہ لا مثال و لا جواب تھا۔ وہ صبر جمیل کے پیکر جمیل تھے۔ وہ استقامت کے رجل جلیل تھے۔ وہ عزم و جرأت اور ہمت و استقلال کے بطل جلیل تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس نشیط مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونی والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی۔ پھر وہ بھس بن کررہ جاتی پے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔ یہ دنیا کی زندگی ایک دھوکہ و مکر و فریب کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے اللہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ کوئی ایسی مصیبت نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہواور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے کتاب یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.