پیر عبد الشکور
گزشتہ دنوں بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ کشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردار پٹیل کشمیر کو بھارت میں ضم کرچکے ہوتے اگر جواہر لال نہرو نے نہ روکا ہوتا۔ راجناتھ سنگھ کے اس بیان سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ کشمیر متنازعہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے ہی اسے ایک تنازعہ کی صورت میں اقوام متحدہ تک پہنچایا جہاں بہت ساری قرار دادوں کے ذریعہ کشمیر ی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے اس بات کی وضاحت کی گئی کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا تعین استصواب رائے سے کریں گے۔
کشمیر کے مسئلے کو پیچیدہ بنانے میں کسی اور کا نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کا ہی ہاتھ ہے کیونکہ ہر دور میں اس مسئلے کو مصلحت پسندی کے تابع بنایا گیا۔ اس کے تصفیہ میں سہل انگاری، عافیت کوشی اور تساہل پسندی سے کام لیا گیا۔ گزشتہ ستھر(۷۰) برسوں میں دونوں ممالک نے وقتاً فوقتاً بظاہر نئے جوش، جذبے اور ولولے کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز کیا اور اس عزم اور یقین کا بار بار مظاہرہ کیا کہ بات چیت جاری و ساری رہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسے روڑے اٹکائے گئے کہ مذاکرات کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
بھارت اور پاکستان کی تیزرفتار ترقی اور مختلف شعبہ جات میں سرعت رفتاری سے پیش رفت میں یوں تو بہت سارے مسائل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں لیکن ان مسائل میں سب سے بڑا اور پیچیدہ ترین کشمیر کا مسئلہ ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کو پائیدار بنیادوں پر حل کرتے تو دفاعی اخراجات صفر پر آجاتے۔ ہر سال اربوں اور کھربوں روپے کی بچت ہوتی۔ آج دونوں ممالک میں کروڑوں لوگ فاقہ کشی، بے روز گاری اور بیماری کے شکار ہیں۔ دونوں ممالک ترقی یافتہ ممالک کے سامنے گردن جھکاکر بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں اور عالمی بنکوں کے قرضے تلے دب چکے ہیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک نے غریب عوام کی خوشیاں چھین کر اور ان کے پیٹ پر لات مار کر ایٹمی توانائی حاصل کی۔ اگر مسئلہ کشمیر کو اپنے ابتدائی وقت میں حل کیا گیا ہوتا تو یقینا دونوں ممالک نے ہر شعبے او رہر میدان میں قابل رشک ترقی کی ہوتی اور ان کا شمار ضرور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا۔ اس تنازعے کے سبب دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً کئی جنگیں بھی ہوئیں لیکن ان جنگوں سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
اب جب کہ بھارتی وزیر داخلہ نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ کشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوا ہے۔ بہ الفاظ دیگر انہوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ انصاف اور تاریخی حقائق کو مدنظر رکھ کر سیاسی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حل کیا جائے۔ دو فریقی بات چیت سے ستھر سال کا طویل زمانہ بھی گذر گیا پھر بھی مسئلہ کشمیر لٹکا ہوا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں یا پھرسہ فریقی بات چیت سے حل کیا جائے۔ کشمیری عوام کی مرضی اور اشتراک کے بغیر مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوسکتا۔