گھروندے۔۔۔۔۔ربانی بشیر(اشموجی کولگام)

گھروندے۔۔۔۔۔ربانی بشیر(اشموجی کولگام)

اس کی زندگی کا سورج اب لب بام آچکا تھا۔وہ آج تھک ہار کر زندگی کے پل بھر کے لمس کو دھیرے دھیرے غیر محسوس رویہّ سے چھوڑ رہا تھا ۔آخری بار اس نے اب اپنی آبدیدہ پلکوں کو بڑی مشکل سے اٹھایا تھا۔تو اس کا دھیان اب گردش ایّام پر جارہا تھا،جہاں اس کا بچپن ،لڑکپن اور خاص کر شبّاب کا حسین سا دور اچھلتا ،کودتا اور رقص میں مخمور جو اب ایک دھندلکا سا رہ گیا تھا ،جس کا بس کوئی حسین سا لمس اس کی آنکھوں سے ٹپ… ٹپ…کرکے برس رہا تھا ۔شاید سارا اس کے سرہانے اس کے آخری انفاس کو بڑی کرب سے الوداع کہنے کے لئے بے قرار سی تھی ۔جدائی کے اس پل کو محسوس کرکے اس کو کئی کہانیاں یاد آکے رہ گئیں تھیں….!وہ بچپن کی شادی ….!تصوّر ازدواج سے پرے دونوں کا دن بھر گھر سے غائب رہ کر دریا کے کنارے گھنے پیڑوں میں گھروندوں کی آرائش میں غم حیات اور دنیا کے ہنگاموں سے ماورا ہوکے بے غم سرمستیاں کرنا …جب تک سورج انہیں احساس نہ دلاتا …..اب چلے بھی آو کہ شام ہوئی….! گھروندے ….!انسان کیوں کر زندگی بھر یہ گھروندے بناتا رہتا ہے اور ان کی آرائش و زیبائش سے کرتا رہتا ہے،حتی کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی ہمیشہ انہیں گھروندوں کی طرح شام ہوتے ہی بکھرنے لگتی ہے ۔شام کی اور دھیان جاتے ہی سرمد اپنی شریک حیات سارا کے زرد چہرے کی طرف الوداعی نظروں سے مسکرانے لگا ۔شاید….!وہ بچپن کی شام یاد آئی ہو….!جب دونوں ازدواجی شام کے بجائے پرانے رعشہ زدہ چراغ کے سامنے تختی پر لڑ رہے تھے ،اتنے کم سن اور معصوم کہ انہیں سماج کی سونپی ہوئی ذمّہ داریوں کا شعور بھی نہ تھا کہ ہم ازدواجی رشتہ کو نبھا رہے ہیں یا ہم سبق ہونے کے رشتے کو۔ ’’امّی….ی…ی…ی….!‘‘سارا نے زور سے اپنی ساس کو پکارا ۔’’ہو کیا گیا ہے تم دونوں کو،لڑنے کے بغیر تم دونوں کے پاس اور بھی کام ہیں….!‘‘امّی نے بڑے ہی رعب سے دونوں کو ڈھانٹا۔’’دیکھو تو‘‘….’’سرمد نے میری دوات گرادی‘‘….سارا نے امّی سے شکایتی انداز میں کہا۔سرمد نے وینٹیلیٹر پر سارا کی اور دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ بھری۔شاید …!سرمد کو سارا کی چیخ کی وہ بازگشت وقت کے دوش پر کانوں میں گدگداتی نظر آئی تھی ،جب امّی کے ڈھانٹنے پر سرمد نے صبح کلاس میں سارا کا کان کھینچ کر اس سے بدلہ لیا تھا۔ ’’کیوں ہنس رہے ہو‘‘….سارا نے دبے لہجے میں کہا ۔ ’’کچھ نہیں ‘‘….سرمد پلکوں سے اشارہ کرکے مسکرایا۔ابھی امّی کی ڈھانٹ ہی کی یادیں تھیں کہ بانسری کی ہلکی سی آواز نے لحظہ بھر کے لئے سرمد کی روح میں تراوت گھول دی جب سرمد بطورسگنل  بانسری کو بجاتا تھا اور سارا پنگھٹ پہ برتن لیکر نکلتی تھی اور اسکول سے واپسی کا وہ منظر اور سارا کا پنگھٹ پر وہ گھنٹوں انتظار ….!نہ جانے کہاں گئے وہ دن ….؟جو ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کے کٹ جاتے تھے ۔اب سب کچھ وقت کی دھول کے نیچے دب گیا تھا …..!’’ہائے زندگی تجھ کو کہاں کہاں ڈھونڈوں میں….؟ ‘‘سرمد نے لمبی آہ بھری ۔جیسے طویل سفر سے تھک کر یٹھ گیا ہو ۔ماضی کے جھونکے اب سرمد کے خیالات کو دھیرے دھیرے محاصرے میں لے رہے تھے اور سرمد بھی انہیں جھونکوں کے تھپیڑے کھا کھا کر بیتے پلوں کی لہروں پر ہچکولے کھا رہا تھا،جہاں یادوں کی ایک کتاب پریشاں پڑی تھی۔ بچپن اور لڑکپن کی کلکاریوں کو ایک دن رو بہ زوال ہونا ہی تھا ۔مگر دونوں وقت کے اس مزاج اور رویّہ سے بالکل ناواقف تھے کہ شاید …!پھر نہ ملے یہ زندگی کا فسوں ۔ماہ و سال آتے چلے جاتے ہیں اور دونوں بلوغیت کی اچھلتی لہروں کو دن بہ دن عبور کرکے چلے جاتے ہیں ۔سرمد نے اب اچھے برے میں تمیز کرنا سیکھا تھا اور حق و باطل کی سدھ بداس کے ذہن کے دریچوں کو وا کرنے لگی تھی۔سرمد نے ملک کی آزادی کے لئے انقلابی سرگرمیوں میں اب حصّہ لینا شروع کیا تھا اور یہ سوچے بغیر کہ یہ سہی ہے یا غلط سارا ہر موڑ پر اسکا ساتھ دئے جا رہی تھی۔’’سارا …سارا‘‘سرمد آدھی رات کی تاریکی میں کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔’’کون ہے…؟‘‘’’میں پوچھتی ہوں کون ہے…؟‘‘سارا نے متحّر لہجے میں پکارا۔’’میں سرمد …‘‘سرمد نے واپس نر،م لہجے میں جواب دیا ۔’’اوہ….ہو…ہو….ہو… میں تو گھبرائی ہی گئی تھی…!سارا نے سرد آہ بھرتے ہوئے سرمد سے کہا۔’’چلئے چلئے جلدی اندر آجائے…بابا دن بھر غصّے میں تھے‘‘سارا نے کھڑکی کھولتے ہوئے کہا۔’’کیا کہہ رہے تھے بابا …؟‘‘سرمد نے سوالیہ انداز میں کہا۔’’کہہ رہے تھے کہ جب سے سرمد نے کالج میں داخلہ لیا ہے ،اس کے تیور بدل سے گئے ہیں …اور زور زور سے چلّا رہے تھے کہ یہ انقلاب کا جنون اس کے دماغ سے اس وقت اتر جائے گا جب پولیس اسے گھسیٹ کے لے جائے گی‘‘ ’’اور کیا کہہ رہے تھے بابا…؟‘‘سرمد نے پھر سے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’اور کہہ رہے تھے کہ اس کے وہ پاگل دوست اسے بہکا رہے ہیں۔‘‘سارا نے وہ سب دہرایا جو بابا نے اسے کہا تھا۔ بابا نے بڑے ہی ناز اور لاڑ پیار سے سرمد کی پرورش کی تھی ۔چونکہ بابا کے ہاں اپنی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی اور یہ غم اسے گھلائے جا رہا تھا کہ….کہں میرے یوسف کو بھیڑیا نہ کھا جائے اور رہگزردر رہگزر پھر زندگی کی شام نہ ہو جائے….!شاید بابا کے نوشتہ تقدیر میں یہی طے پایا تھا ۔ سورج کی سرخی پہاڑوں میں پھیل چکی تھی ۔پرندوں کے جھنڈ اپنے حوصلوں کے ساتھ خنک فضا میں تیر رہے تھے ۔عجب سماں تھا ہر کوئی آزاد …اپنی دنیا میں محو …مگر سرمد …؟انسان کے خود ساختہ قوانین کی زنجیروں میں صدیوں سے جکڑا ہوا تھا اور صدیوں سے اس قیدمیں انسان کی سسکیوں اور مجبوریوں کو محسوس کر رہا تھا ،جو اسے بے چین کئے دیتی تھیں اور جس کی وجہ سے وہ اس نظام کہن سے برسرپیکار تھا۔’’ٹھک….ٹھک…‘‘دروازے پر کوئی دستک دے رہا تھا۔’’ٹھک ….ٹھک …‘‘دروازہ پھر سے بجنے لگا۔’’ذرا دیکھ تو سہی کون ہے دروازے پہ‘‘بابا نے سارا سے کہا۔سارا نے جونہی دروازہ کھولا وہاں سے مردانہ آواز میں بڑے ہی محکمانہ انداز میں کسی نے پوچھا…؟’’سرمد کہاں ہے؟‘‘منہ اندھیرے زرہ میں ملبوس تین پولیس اہلکار سارا سے دروازے پہ پوچھ رہے تھے۔’’جی اندر چائے پی رہے ہیں …‘‘سارا نے ہچکچاتے ہوئے دبے لہجے میں جواب دیا ۔سرمد جونہی باہر نکلا پولیس والوں نے اسے دبوچ کر ہتھکڑی پہنائی اور اپنے ساتھ لے گئے ۔سارا پیچھے پیچھے دوڑتی ’’سرمد …سرمد ‘‘چلّا رہی تھی اور بابا روتے روتے دونوں کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا یہاں تک کہ گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ….!اور پھر  ….؟برس ہابرس تک سرمد کے بابا کچہری در کچہری بٹکتے رہے یہاں تک کہ سرمد کو تلاشتے تلاشتے اس کی زندگی کی شام ہوئی ….!اور ….سارا ….اپنی دو معصوم بیٹیوں کے ساتھ سرمد کی راہوں کو  ….اکیلی تکتی رہی ….!ایک طرف سارا کا زرد چہرہ …اور دوسری طرف ….؟سرمد کی آنکھوں میں ….؟ایک بیتی کتاب ….!آج سرمد سارا کی گود میں جوانی کا کفّارا ادا کر رہا تھا ….اس جوانی کا کفّارا جو انہوں نے قفس کی تیلیوں کے پیچھے گزاری تھی۔سار اسے یہ کفّارا چکاتے ہوئے محسوس کر رہی تھی اور سرمد کے وداعی انفاس کو گن رہی تھی۔’’سرمد ….سرمد ….سرمد ….!‘‘سارا ہچکچاتے اور کرب بھرے لہجے میں سرمد کو پکارتی گئی ۔سرمد کی روح دبے پاوں چلنے لگی اور’’دریغا کہ عہد جوانی گزشت‘‘کے نغمے سرمد کے لب پر آکر رک گئے ۔سرمد زندگی کی مصروفیتوں سے ’منتہا‘…اور ….سارا ’تنہا‘…..ٹوٹے ہوئے گھروندوں کے بیچ میں ….!بہے جا رہی ہے میری کشتیٔ عمر رواں آہستہ آہستہ خیالِ خواب ہوتا جارہا ہے یہ جہاں آہستہ آہستہ

ربّانی بشیر ریسرچ اسکالر ،سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر۔[email protected]/9622704429

Leave a Reply

Your email address will not be published.