جموں کشمیر خاص کر وادی میں اکثر یہ بات سُننے کو آرہی ہے کہ وادی میں بے روز گاری روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور نوجو ان طبقہ اس بے روز گاری کی وجہ سے ذہنی تناﺅ کا شکار ہو رہا ہے ۔ کئی نوجوان تنگ آکر خود کشی بھی کرتے ہیں۔کیا واقعی وادی میں بے روزگاری ہے؟ یا پھر یہاں کے نوجوان محنت و مشقت کو چھو ڑ کر راتوں رات کروڑپتی بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں، جو اُن کوذہنی مریض بنا دیتا ہے اور مختلف مسائل سے دو چار کر دیتاہے۔
وادی میں پہلے ایام کے مقابلے میں آج بہت زیادہ کام کرنے اور روزگار کمانے کے وسائل موجود ہیں، صرف راستہ دکھانے والوں کی کمی ہے ،ان نوجوانوں کوصحیح وقت پر صحیح رہنمائی نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف بے روزگاری کی دلدل میں پھنس رہے ہیں بلکہ وہ ذہنی تناﺅ میں مبتلاءہو کر مختلف امراض کے شکار ہو رہے ہیں او ر پھر غلط کام بھی کرتے ہیں۔پہلے ایام میں نہ ہی جدید ٹیکنالوجی دستیاب تھی اور نہ ہی بہتر وسائل تھے، اس لئے سردیوں کے ایام میں یہاں کے لوگ باہر جا کر محنت مزدوری کرتے تھے، اس طرح سردی سے بھی بچ جاتے تھے اور چار پیسے کما کر خوشحال زندگی بھی بسر کرتے تھے۔زمانہ بڑی تیزرفتای کےساتھ بدلتا گیا، دنیا ایک گاﺅں میں تبدیل ہو گیا اور ہر انسان کو ہر قسم کی خبر ہر سیکنڈمیں پتہ چل جاتی ہے۔آج کل کے پڑھے لکھے نوجوان گھر بیٹھے آن لائن اپنا کام چلاسکتے ہیں اور پوری دنیا کے ساتھ جُڑ سکتے ہیں۔وادی کے سینکڑوں پڑھے لکھے نوجوانوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے یونٹ کھول کر نہ صرف اپنے لئے روز گار کمانا شروع کیا بلکہ باقی لوگوں کو بھی روز گار کے مواقعے فراہم کئے۔بدقسمتی سے یہاں کے اکثر نوجوان اپنے خاندانی پیشوں سے بھی یہ سوچ کر انحراف کر رہے ہیںکہ یہ پیشہ اُن کے لئے زلت کا باعث ہے ،اسی لئے اب لوگ ذات بھی بدل دیتے ہیں، وہ محنت کرنے کی بجائے راتوں رات دولت مند بننے کے عادی ہو گئے ہیں۔دستکاری صنعت کا اب کوئی نام لیوا نہیں ہے،اکثر دستکار اب باہر سے ہی آرہے ہیں ۔نائی،گلگار ،نجاریہاں تک کہ لاکھوں کی تعداد میں ملک کے دیگر حصوں سے مزدور اور کاریگروادی ہر سال آتے ہیں اور یہاں سے وہ اچھی خاصی دولت کما کرلے جاتے ہیں،ان کے لئے یہ جگہ دوبئی سے کم نہیں، وہ کشمیر آکر فخر محسوس کرتے ہیں ،اس کے برعکس ہمارے نوجوان اپنا خاندانی پیشہ اختیار کرنے کو اپنے لئے باعث شرم سمجھتے ہیں ۔یہاں کا نوجوان کسی سرکاری محکمے میں ڈیلی ویجر کا کام کرکے اپنی زندگی خراب کرتا ہے، لیکن محنت کر کے روزی روٹی کمانے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہو رہا ہے۔
سرکار نے اگر چہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو روز گار فراہم کرنے کے لئے مختلف قسم کی اسکیمیں مرتب کی ہیں لیکن ان اسکیموں کو عملانے اور عام لوگوں تک پہنچانے میں انتظامیہ ناکام ہو رہی ہے یا پھر دفتری طوالت کا مظاہر کر کے افسران ان نوجوانوں کو مختلف قواعد و ضوابط کے بہانے الجھاتے ہیں ،جس کی وجہ سے یہ نوجوان عدم دلچسپی کا مظاہر کرتے ہیں اورذہنی تناﺅ میں مبتلاءہو رہے ہیں ۔اس بارے میں یہاں کے حکمرانوں انتظامی افسران اور دیگر زی حس لوگوں کو مل جُل کر کام کرنا چاہیے تاکہ بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے، جو وادی میں ایک خطر ناک مرض کی طرح روز بروز پھیل رہی ہے۔





