مولانامودودیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مولانامودودیؒ۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

٭شیخ جاوید ایوب

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انیس اور بیس کی صدیاں انسانی ذہانت کے اعتبار سے بڑی ذرخیز تھیں۔ دنیا بھر میں ایسی شخصیتوں نے جنم لیا جنہوں نے اپنی کوششوں اور اپنی ذہانت سے اس دنیا میں رہنے والے انسانوں کے حالات بدل دئے، ان کے صبح شام بدل دئے، ان کے دن اور رات بدل دئے۔ بر صضیر ہند و پاک کی بات کی جائے تو انیسویں صدی کے اوآخر سے لے کر بیسویں صدی کے ابتدائی دور تک ایسی عبقری شخصیتیں نمودار ہوئیں جو رہتی دنیا تک یاد کی جائیں گی اور جن کے کارنامے تا قیامت دہرائے جاتے رہیں گے۔ ان شخصیتوں نے ہر میدان میں اپنے ہنر آزمائے اور کارنامے انجام دئے۔ سیاست میں علی محمد جناح کی بات کی جائے یا گاندھی یا نہرو کی بات ، سر سید احمد خان کی بات کی جائے یا مولانا ابوالکلام آزاد کی، اقبال کی بات کی جائے یا فیض احمد فیض کی، غرض کہا جاسکتا ہے کہ انسانی تاریخ کا یہ حصہ لا مثال تھا۔ یہ تصویر کا ایک رخ تھا مگر دوسری طرف سے دیکھا جائے تو امت مسلمہ کیلئے یہ وقت بڑا کٹھن تھا کیونکہ اسلام پرہر سمت سے طعنوں اور فتنوں کی یلغار ہو رہی تھی۔ ان نئے فتنوں نے مسلم ذہنوں کو بھی مفلوج کر دیا تھا۔ سائنسی ترقی نے علماءاسلام کو ایک سخت امتحان میں ڈال دیا تھا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ بدلتے دور میں اسلام کی تاویل کیسے کی جائے تاکہ نئے سوالات اور نئے چلینجوں کا سامناکیا جا سکے۔خود مسلمانوں کی بھی حالت یہ ہو گئی تھی وہ غیر اسلامی فکر میں غرق ہوتے جارہے تھے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ قوموں کے انداز بدل جاتے ہیں ، نشیب و فراز بدل جاتے ہیں، حق و ناحق کی تمیز بدل جاتی ہے، عدل و انصاف کے پیمانے بدل جاتے ہیں، سوچ بدل جاتے ہیں افکار بدل جاتے ہیں۔ غرض ہر ادا بدل جاتی ہے ہر انداز بدل جاتا ہے۔ حالات کا تقاضا تھا کہ ایک مجدد کا ظہور ہو، ایک مفکر کی تشریف آوری ہو، ایک ولولہ انگیز داعی کی ولادت ہو جو ان غیر اسلامی افکار ونظریات کی طاقت توڑنے کا حوصلہ کرے، ان کا رخ موڑنے کی سعی کرے، جو اسلامی ذہن کی تشکیل جدید کا بھیڑا اُٹھائے، جو اکیلا چلنے کی جرا¿ت رکھتا ہو، جو علم و حکمت سے لیس ہو۔ حالات کا تقاضا تھاکہ ایک ایسی شخصیت کی آمد ہو جو بیک وقت مجدد بھی ہو، محدث بھی، داعی بھی ہو تحریک بھی، شخص بھی ہو کاروان بھی، فلسفی بھی ہو اور سائنسی بھی، جو وسعتِ نظر بھی رکھتا ہو اور وسعتِ قلب بھی، جو انسانوں کے سامنے اسلام کی صحیح روح کو اجاگر کرے۔
شاہ محدث دہلوی ؒ کوگزرے دو صدیاں گزر چکی تھیںاور اسلامی افکار پر گرد غبار سا چھا چکا تھا، اجتہاد کے دروازے جیسے بند پڑے تھے۔ اسلام روایتی دین بنتا جا رہا تھا اور مسلمان دین کے حقیقی روح سے نابلد ہوتے جارہے تھے۔ ایسے میں اﷲ کی رحمت برجوش آئی اور ۵۲ ستمبر ۳۰۹۱ءکو حیدر آباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں ایک بچہ جنم لیتا ہے جسے دنیا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا مودودی ؒدراصل ایک ایسی شخصیت کانام ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کیلئے چن لیا تھا اور ان سے ایسی خدمت لی کہ عالم اسلام ہی نہیں بلکہ غیراسلامی دنیا میں بھی اس کے کام کو سراہا گیا اور تا وقتِ قیامت سراہتا جائے گا۔سید ابو الاعلی مودودیؒ جس دور میں پیدا ہوئے وہ نہ صرف سیاسی طور پر بر صغیر ہند و پاک کیلئے ایک بد ترین دور تھا۔ یہ دور برطانوی سامراج کا دور تھا اورایک ایسی غلامی کا دور تھا جس نے یہاں کے عوام کے ضمیر کو بدل کے رکھ دیا تھا۔خلافتِ عثمانیہ کا سورج غروب ہو چکا تھا اور مغرب نے پوری مسلم دنیا کو اپنے شکنجے میں لے لیا تھا۔ انگریزوں نے نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہ اپنے فکری تسلط جمانے میں بھی کامیاب ہو چکے تھے ۔ خود بر صغیر ہند و پاک میں بھی اند رونی سطح پر بھی حالات دگرگوں تھے۔ مغربی افکار نے اس سر زمین میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ مولانا مودودی ؒبلوغت کو پہنچے ہی تھے کہ ان ہنگاموں نے طوفان ِ بدتمیزی برپا کرنی شروع کر دی۔ مارکس کا اشتراکی فلسفہ ہو یا فرائڈ کا نظریہ جنسیات، افلاطون کے طلسمی خیالات تھے یا ڈارون کا نظریہ ارتقائ۔ غرض اﷲ کے بندوں کو اﷲ سے دور کرنے کی جان توڑ محنت کی جارہی تھی اور جس کا اثر نمایاں دکھنا شروع ہو گیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے اندر ایسے فتنے پیدا ہو چکے تھے جن کا بر وقت سدِ باب بہت ضروری تھا۔ فتنہ منکر حدیث، فتنہ قادیانیت، دہریت یا قومیت وغیرہ نے ایک پھوڑے کی مانند پورے معاشرے کو درد و کرب میںمبتلا کر رکھا تھا۔ ان حالات میں ضرورت تھی ایک مصلح کی جو بگڑے افکار کی اصلاح کا بھیڑا اٹھائے ، ایک ڈاکٹر کی جو مہارت سے ان امراض کے علاج کا بھاری بار سنبھالے۔ مولانا مودودی ؒ آگے بڑھتے ہیں اور ان افکار اور نظریات کے خلاف لڑنے کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔
جس دور میں مولانا مودودی ؒ نے اپنے کام کا آغاز کیا اس دور میں مسلم ذہن ایک ایسا تقلیدی ذہن بنا تھا جو بری طرح قدامت پرستی کا شکار تھا، جس کی سوچ یہ تھی کہ قدماءنے بعد والوں کیلئے کسی اجتہاد کی گنجائش نہیں چھوڑی، اجتہاد کا دروازہ اب بند ہو چکا ہے۔ انہی حالات اور اس ماحول میں مولانا مودودیؒ اپنی تجدیدی فکر کے ساتھ منظر عام پر آئے اور اسلام کو اسی انداز میں اور ویسا ہی پیش کیا جیسا وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں سے آیا تھا۔مولانا مودودیؒ کا اسلام ، جس کی تجدید کیلئے انہوں نے کمر کس لی تھی، وہ مختلف مسالک جمود پسند مقلدوں کا اسلام نہیں تھا، جو اجتہاد اور تجدید کے سرے سے مخالف تھے۔ نہ ہی آپ کا اسلام تصوف کے بھٹکے ہوئے راستے میں غرق ہوئے ان صوفیوں کاہے جنہوں نے عبادات کو چھوڑ کر بدعات کو اپنا دین تسلیم کر لیا ہے۔ مولانا ؒ کا اسلام ان تجدید پسندوں کا اسلام بھی نہیں جو مغربی تہذیب کے پر ستار اور مغربی فکر کے غلام تھے اور جنہوں نے مغرب کو ہی اپنا قبلہ بنا لیا ہو۔ اس کے برعکس امام مودودیؒ کا اسلام وہ خالص اسلام ہے جو اﷲ کی طرف نازل ہوا ہے(علامہ یوسف القرضاوی، امام مودودی)۔ مولانا ؒ کے نزدیک اسلام زندگی کا کامل نظام ہے۔ وہ عبادت کا نظام بھی ہے، اخلاق کا نظام بھی ہے، اجتماعی نظام بھی ہے، معاشی نظام بھی ہے، اور سیاسی نظام بھی ہے۔
مولانا مودودیؒ ایک ایسے اسکالر کے روپ میں ابھرے جس کی پشت پر نہ کوئی خانقاہ تھی اور نہ ہی کوئی درسگاہ، اور نہ ہی پیر مرشدی کا کوئی سلسلہ۔ اسلئے آپ کے مزاج میں نہ خانقاہی تھی اور نہ آپ میں روایتی تقلید کی عقیدت۔آپ نے اپنی ذاتی کوششوں سے جدید علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ سے عربی ادب، تفسیر، حدیث، فقہ منطق اور فلسفے کی کتابیں بھی پڑھیں۔ اسطرح آپ کی ذات قدیم اور جدید علوم کا ایک انوکھا سنگم بنی اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی تحقیق اور اپنی علمی دلیلوں سے اپنے لئے خود اجتہاد کا راستہ ڈھونڈا اور Reinterpretation of Interpretations کے اصول کو بنیاد بنا کر کام کا آغاز کر دیا ۔آپ نے اپنی تصانیف میں دین کے تمام پہلوﺅں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے دین کی جامعیت اور آفاقیت کو دلیل بنا کر اس کو ایک مکمل نظام کی شکل میں پیش کیا۔مولانا مودودی ؒ بیک وقت ایک جید عالم بھی تھے اور ایک رسیرچ اسکالر بھی، مفسر بھی تھے اور مفکر بھی، مورخ بھی تھے اور مبلغ و خطیب بھی، ایک دانشور بھی تھے اور صحافی و ادیب بھی اور اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ ایک بالغ نظر سیاست دان بھی۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی تو دیکھئے کہ جس ملت اسلامہ کے قیام کیلئے اس بندہ¿ عظیم نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ تیاگ دیا اسی ملت اسلامیہ سے وابستہ لوگوں نے اس داعیِ حق کو شدید ترین ظلم کا نشانہ بنا دیا۔ طرح طرح کے الزامات سے آپ کے دامن کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی۔ کبھی علماءِوقت نے صرف اس بنا پر مولانا مودودیؒ کو عالمِ دین تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ کسی دارالعلوم سے سند یافتہ نہیں ہیں تو کبھی آپ کے افکار کو ملک دشمنی کا نام دے دیا گیا۔ ایک انسان اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے کہ علم عالم کو سند عطا نہیں کرتی بلکہ سند یافتہ جاہل بھی وقت کے جید علماءبن جاتے ہیں۔ ہماری ریاست اس عظیم کارنامہ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہاں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نہ عصری علوم میں آگے بڑھ سکے اور نہ ہی دین کا صحیح علم انہیں حاصل ہوا ہے۔ اگر علم کی کسوٹی پر انہیں پرکھا جائے تو وہ بہت ہلکے ثابت ہوتے ہیں مگر کیا کہیے ایسی سوچ اور ایسے اپروچ کا کہ یہاں کے منبر و محراب ان کے بغیر نہیں سجتے۔یا وہ اپنی دلکش آواز سے عوام کی دلجوئی کرتے ہیں یا ایسے ایسے فتنوں میں انہیں الجھائے رکھتے ہیں کہ انہیں سوچ بچار کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔ لوگ بھی ایسے کہ جنہیں جدھر لے جایا جائے بس چل ہی دیتے ہیں۔ اس عوام کو اتنی سختیوں کے بعد بھی حق اور ناحق میں تمیز کرنا نہیں آیا۔ دین پر ان حضرات نے ایک طرح کا جاگیردارانہ گرفت قائم کی ہوئی ہے جس سے ہر حال میں توڑنے کی کوشش کی جائے۔ صحیح طریقہ کار یہی رہے گا کہ عصری علوم کے بہترین دماغوں کو عملی دین سے روشناس کرایا جائے تاکہ دین کی صحیح خدمت ہو اور صحیح قسم کی فکر رکھنے والے انسان ہی دین کے داعی کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔
امت مسلمہ کی شروع سے ہی یہ سنت رہی ہے کہ نہ صرف عام انسانوں اور وقت کے علماءنے داعیانِ حق کے خلاف محاذ کھولے بلکہ حکومت ِوقت نے بھی مسلمانوں کی وہ تاریخی میراث قائم رکھی جس کے تحت حق کا کلمہ بلند کرنے والوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا ۔ امام احمد بن حمبلؒ ؒہو یا امام ابوحنیفہؒ، حسن البناؒ ہوں یا سید قطب ؒہر ایک حق پسند کے ساتھ ظالم حکمرانوں نے ظلم و جبر روا رکھا۔ جہالت میں لت پت وقت کے ان فرعونوں نے امام مودودیؒ کو سزائے موت کے فرمان بھی جاری کر دئے۔ صبر و استقلال کا یہ پہاڑ ان مصائب کا سامنا بڑے بے باک انداز میں کرتا رہا اور کبھی زبان پر حرف شکایت نہ لائی۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وقت کے خطیب یہ فتوے بھی جاری کرتے رہے کہ اگر کوئی ’مودودیہ‘ مر جائے اور اس کی قبر پر بیری کا درخت اگ آئے تو اس بیری کے پتے کھا کر اگر کوئی بکری دودھ دے تو وہ دودھ پینا بھی حرام ہے(بحوالہ شجر ہائے سایہ دار، ص، ۵۷)۔ کسی نے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ صادر کر دیا تو کسی نے ان کے ساتھ ترکِ موالات کا فتویٰ جوڑ دیا۔ لیکن یہ سمندر ان سارے الزامات کو اپنے اندر سموتا رہا اور کسی کے خلاف شکن تک نہ ظاہر کی۔ مولانا مودودیؒ کا ماننا تھا کہ دین اس وقت تک غالب نہیں آسکتا ، جب تک کہ یہ امت صحابہ کرام ؓ کی وہ صفت اپنے اندر پیدا نہ کر لے، جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے” اور جو نبی کریم کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں“۔ مولانا مودودیؒ علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے صحیح مصداق تھے:
ہو حلقہ یاراں بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باظل ہو تو فولاد ہے مومن
مولانا مودودیؒ نے صرف فکری میدان میں کام نہیں کیا بلکہ اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جماعت اسلامی کے نام سے ایک تحریک برپا کر دی۔ اس تحریک نے سب سے پہلے مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرائی کہ اسلام اپنا ایک نظامِ زندگی رکھتا ہے، اپنا ایک نظام ِ تہذیب رکھتا ہے، اپنا ایک سیاسی نظام رکھتا ہے، اپنا ایک معاشی نظام رکھتا ہے، اپنا ایک نظام ِ فکر اور نظام تعلیم رکھتا ہے جو ہر لحاظ سے مغربی تہذیب اور اس کے متعلّقات سے فائق ہے۔ (تحریک اسلامی ایک تاریخ، ایک داستان، ص، ۰۰۱)۔ دین کیلئے منظم جدوجہد کیلئے ایک داعی¿ جماعت کی ضرورت ہے اور اسکے نقشے کو مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“ حصہ سوم میں زور دار انداز میں پیش کیا (روداد جماعت اسلامی، حصہ اول، ص، ۴،۵)۔مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“ حصہ سوم میں پیش کی گئی نظریات کو اساس بنا کر مولانا مودودیؒ نے ۰۴۹۱ءمیں ایک اسلامی جماعت کی تشکیل کی دعوت دی اور کونو انصار اللہ کی صدا بلند کی۔ ” اس فکر ، ان مقاصد،ان عزائم اور منزل کے واضح شعور کے ساتھ ۵۷ اللہ کے بندوں نے مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے کی طرف بلانے اور انکو منظم کر کے امت کو اس کے اصل کام پر گامزن کرنے کا عہد کیا اور عشق اور جنون کے جذبات سے سرشار ہوکر دنیا کو بدلنے کے انقلابی سفر کا آغاز کیا۔ مولانا مودودیؒ اس تحریک کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔جب مولانا مودودی ؒ کو جماعت اسلامی ہند کا امیرمنتخب کیا گیا تو انہوں نے ایک مختصر تقریر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
”مجھے ایک لمحے کیلئے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں۔بلکہ میں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِ عظیم کیلئے آپ کو مجھ سے بہتر آدمی نہ ملا، میں آپ کو یقین دلاتا ہوںکہ اپنے فرائضِ امارت کی انجام دہی کے ساتھ میں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اٹھانے کیلئے مل جائے اور جب میں ایسے آدمی کو پاﺅں گا تو خود سب سے پہلے اس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیزمیں ہمیشہ ہر اجتماعِ عام کے موقعے پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گاکہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہترآدمی پا لیا ہے تو وہ اسے اپنا امیر منتخب کر لے، اور میں اس منصب سے بخوشی دست بردار ہو جاﺅں گا….البتہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کیلئے نہ اٹھے تو میں بھی نہ اٹھوں۔میرے لئے تو یہ تحریک عین مقصدِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لئے ہے، کوئی اس پر چلنے کیلئے تیار نہ ہو، بہر حال مجھے تو اسی راہ پر چلنااور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا، کوئی ساتھ نہ دے گاتو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہو کر مخالفت کرے گی تو مجھے تنِ تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے©“(روداد جماعتِ اسلامی ہند، حصہ اول، ص ص، ۶۱، ۷۱،۸۱)۔ یہ قائدانہ صلاحیت اور یہ تحریکی جذبہ مولانا مودودیؒ کا ہی خاصا تھا جو کسی اور کے ورثے میں نہیں۔انہی فکری اور عملی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مولانا مودودیؒ کو۸۲ فروری ۹۷۹۱ءکو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔شاہ فیصل ایوارڈ کی تقریب کے افتتاحی خطاب میں شاہ خالد نے فرمایا کہ یہ ایواڑ اسلام کیلئے ہمہ پہلو کام کرنے والوں کیلئے بنا ہے۔ ایسے افراد تو موجود ہیں جنہوں نے محض فکری کام کیا ہے مگر عملی میدان میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے عملی میدان میں کام تو کیا ہے مگر انکا کوئی فکری کام نہیں ہے۔ اس لحاظ سے مولانا مودودیؒ وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے فکری اور عملی دونوں میدانوں میں فروغ اسلام کیلئے بے مثال کام کیا ہے(بحولہ علامہ ابو الاعلی مودودیؒ حیات و خدمات)۔شاہ فیصل ایواڑ مولانا مودودیؒ کے علم و عمل پرسند سے کم نہیں۔یہ وہی مولانا مودودیؒ ہیں جنہوں نے ۴۲ سال کی عمر میں الجہاد فی الاسلام جیسی عظیم ترین کتاب لکھ کر اپنے علم کا لوہا منوایا۔
مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ سو سے زائد تصنیف کردہ کتابیں نہیں، تفہیم القرآن نہیں، سیرت سرورِ عالم نہیں، بلکہ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو جینے کا ایک اعلیٰ مقصد فراہم کیا۔ انہوں نے الحاد، دہریت ، خدا بیزاری سے انسانوں کو نکال کر بندگیِ رب کے راستے پر گامزن کر دیا اور من الظلماتِ الی النور کا فریضہ انجام دیا۔ دین اسلام کیلئے اپنے حصہ کی خدمت پیش کر کے ۲۲ ستمبر ۹۷۹۱ءکو مولانا مودودیؒ نے اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کر دی، انا ﷲ وانا الیہ راجعون! اﷲ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو درگزر فرمائے(آمین)٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.