ستمبر13
جب ٹنگمرگ کو خون میں نہلایا گیا
اشفاق پرواز
اک چاک ہو تو سی لوں یارب گریباں اپنا
ظالم نے پھاڑ ڈالا ہے تار تار کر کے
پچھلے سال کی طرح سال ۲۰۱۰ میں بھی تحریک حق خود ارادیت کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وادی کے اطراف و اکناف میں عوام الناس نے بیش بہا قربانیاں پیش کر کے بلاشبہ زندہ قوم ہونے کا ثبوت فراہم کیا ۔ ۱۲۱ ؍سے زائد کمسن نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے تحریک کے جڑوں کی خوب آبیاری کی اور ہزاروں نوجوان فوج، سی آر پی ایف اور پولیس کے ہاتھوں زخمی ہوے اور ہمیشہ کے لیے معذور ہو کر رہ گئے۔
۱۲ ؍اور ۱۳؍ ستمبر ۲۰۱۰ کی درمیانی رات کو ایک غیر ملکی ٹیلی ویژن چینل کے ذریعے رات دیر گئے یہ خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئ کہ امریکہ میں قرآن پاک کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔ خبر نشر کیا ہوئی کہ لوگ جوق در جوق اپنی میٹھی نیندکو یک طرفہ چھوڑ کر گھروں سے باہر نکل آئے۔اس خبر کے ساتھ ہی کشمیر میں احتجاج شروع ہوا ۔یہ رات اگر چہ احتجاج میں پر امن طور گذری لیکن رات کی ظلمتوںسے جس نئ صبح نے جنم لیا وہ کوئی معمولی صبح نہ تھی ۔یہ وہ دن تھا جب ہماری خوبصورت وادی کو خون میں نہلایا گیا ۔ ٹنگمرگ سے لیکربڈگام اور بانڈی پورہ سے لیکر اسلام آباد تک خون کی ہولی کھیلی گئی اور یوں اس خون کی ہولی میں کشمیر کے ۲۳؍ لخت جگر پولیس اور سی آر پی ایف کی گولیوں کا شکار ہوکر شہید ہو گیے۔
وادی کے دیگر علاقوںکی طرح ٹنگمرگ میں بھی رات بھر قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف شبانہ پر ُ امن احتجاج جاری رہا۔۱۳؍ستمبر ۲۰۱۰ سوموار صبح ٹنگمرگ کے مضافاتی دیہات وانی گام پٹن، تلگام پٹن، پلہالن، مغل پورہ ، کھئ پورہ، سالوسہ کریری ، شیخ پورہ، کاوچک ، کریری، ریشی پورہ، وانلو، نمبل نار، ژونٹھ پتھری ،بٹہ پورہ اور دیگر کئ دیہات سے انسانی سروں کا ایک سیلاب اُمڈ آیا اور زرن کے راستے ٹنگمرگ کی جانب پیش قدمی شروع کی ۔ جبکہ سرینگر گلمرگ شاہراہ پر واقع چچلی لورہ،لعلپورہ دھوبی ون ، کنزر، تمرہامہ ،ریرم، درورو، بدرکوٹ، وانی گام، چندی لورہ، اقبال کالونی اور فیروزپورہ سمیت درجنوں دیہات سے بھی ہزاروں لوگوں پر مشتمل جلوس برآمد ہوا جو امریکہ کے خلاف نعرے بازی کرتا ہوا اور اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا ہوا پُرامن طریقے سے ٹنگمرگ کی جانب روانہ ہوا ۔دونوں جلوس ٹنگمرگ میں ایک ساتھ مل گئے۔
ٹنگمرگ کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔گلمرگ کی آغوش میں ٹنگمرگ کا شمار وادی کشمیر کے حسین ترین صحت افزا مقامات میںکیا جاتا ہے۔عمومی طور گلمرگ جانے والے سیلانی ٹنگمرگ میںقیام کیے بنا آگے کی جانب پیش قدمی نہیں کرتے ہیں۔کیونکہ یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں اور پھولوں کی مہک دلوں کو مسرور کر دیتی ہے۔۱۳؍ستمبر ۲۰۱۰ کو ٹنگمرگ کا صحت افزا مقام پھولوں کی مہک سے نہیں بلکہ جوانوں کے گرم اور مقدس لہو سے لال ہوچکا تھا۔خاکستر املاک سیاہ دھویں میں سیاحوں کی بھیڑ کے بجاے تاحد نگاہ ہر سو گولیوں سے چھلنی انسانی بدن نظر آرہے تھے ۔گاڑیوں کی آمد و رفت اور سیلانیوں کی چہل پہل کے بجائے گولیوں کی گن گرج اور وردی پوشوں کی مار دھاڑ میں زخمیوں کی چیخ و پکار انسانی دلوں کو چیر رہی تھی ، ہر سو آہ و فغان کا عالم تھا۔ایمبولینس گاڑیوں کی خوفناک آواز ایک بڑے خونچکان کا اعلان کر رہی تھیں۔ تیس ہزار کے قریب لوگوں پر مشتمل اس مشترکہ جلوس نے سب سے پہلے ٹنگمرگ میں قائم ایک عیسائی مشنری ا سکول کی تین منزلہ عمارت کو یہ جان کر نذر آتش کر دیا کہ یہ علاقہ میں مشنری کے تحت چل رہا ہے ۔ آگ کی تپش سے اسکول میں موجود ایک درجن سے زیادہ گیس سلنڈر یکے بعد دیگرے زور دار آواز سے پھٹنے لگے ، جس سے آگ میں مزید شدت آگئی۔ صرف آدھے گھنٹے میں پورا اسکول راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا ۔ اس موقعہ پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس اور سی آر پی ایف نے ہوا میں فاےرنگ کرنے کے علاوہ ٹیر گیس شلنگ کی اور اسکول کی باہری گیٹ کا مرکزی دروازہ بند کر کے اندر موجود مشتعل نو جوانوں کو گرفتار کر لیا ۔ جونہی لوگوں کو ان جوانوں کی گرفتاری کی خبر ہوئی تو وہ ان کو ڈھونڈنے کے لیے جلوس کی صورت میں پولیس تھانہ ٹنگمرگ کی جانب بڑھنے لگے لیکن وہاں پولیس نے لوگوں کو تھانے میں گھسنے سے روک دیا۔یکایک خوف و دہشت طاری ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں پر سے چار انسانی لاشوں کو بر آمد کر دیا گیا۔جب کہ ایک نو جوان اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر زندگی کی جنگ ہار بیٹھا۔ کہنے کو تو اس سانحے میں ۵؍ افراد جان بحق ہوگئے لیکن اصل میں یہ پانچ کنبوں کی خوشیوں کا جنازہ نکالا گیا۔ ؎
امن و امان کی باتیں جو کرتے تھے ہر طرف
نکلے انہی کے پاس سے خنجر لہو لہو
پولیس اور سی آر پی ایف نے وہاں موجود نوجوانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جس کے نتیجے میں بہت سارے نوجوان وہیں پرخون میں لت پت ہو کر گر پڑے ۔ جونہی لوگوں نے ان نوجوانوں کو سڑک پر خون میں لت پت پایا تو انہوں نے نعرے بازی شروع کی ۔اس کے بعد لوگوں کی راہ میں جو آیا ،وہ ملیامیٹ ہوگیا۔ لوگوں نے سب سے پہلے مین مارکیٹ میں موجود تحصیلدار دفتر، ان کی سرکاری گاڑی اور رہائشی کوارٹر کو جلا ڈالا۔اسکے بعد ٹریجری آفس ، محکمہ پشوپالن کا بلاک آفس، ٹول پوسٹ ، بلاک آفس ، فشریزہٹ، فارسٹ رینج آفس ٹنگمرگ کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ ابھی آتشزنی کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ فورسز کی اضافی کمک ٹنگمرگ پہنچائی گئ۔ جنہوںنے وقت ضائع کیے بغیر لوگوں پر یلغار کی اور شدید شلنگ اور فاےرنگ کر کے لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا ۔ فاےرنگ اورشلنگ کا یہ عالم تھا کہ گن گرج کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اور لوگ جان کی امان پانے کے لیے محفوظ مقامات کی جانب بھاگنے لگے ۔ افرا تفری کے عالم میں لوگوں کو چاروںا طرف بھاگتا دیکھ کر پولیس اور سی آر پی ایف اہلکاروں نے انہیں چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا ۔اور اسکے بعد چار مقامات پر (ٹول پوسٹ، پولیس تھانہ، تحصیلدار دفتر اور مارکیٹ) پر مظاہرین پر راست فائرنگ کا سلسلہ شروع کیاگیا ۔ فائرنگ کی شدت اس قدر خطرناک تھی کہ جو جس جانب بھاگنے لگا،اسی جانب گولیاں اس کاپیچھاکرنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹنگمرگ قصبہ کے ہر طرف تا حد نگاہ زمین پر زخمیوں کے ڈھیر لگ چکے تھے ۔ ہر طرف خون ہی خون تھا ۔ فائرنگ اورشلنگ کی گن گرج میں خون میں غلطاں زخمیوں کی چیخ و پکار فضا کو چیر رہی تھی ۔زخمی مدد کو پکار رہے تھے کہ گولیوں کی بارش تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھی اور یوں گولیوں سے محفوظ لوگ بے بسی کے عالم میں اپنے ساتھیوں کو لہولہاں دیکھ کر بھی کچھ کرنے سے قاصر تھے اور جنہوں نے مدد کرنے کی کوشش کی وہ خود گولیوں کا نشانہ بن گیے ۔ ایک گھنٹہ تک گولیوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر جب گولیوں کی گن گرج بند ہوئی تو زخمیوں کو اسپتال لے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ فورسز اس قدر بوکھلاہٹ کے شکار ہو چکے تھے کہ انہوں نے جب دیکھا کہ زخمیوں کو اسپتال لے جایا جارہا ہے تو انہوں نے اسپتال کو بھی نشانہ بنا دیا ۔
اک دو زخم نہیں سارا جگر ہے چھلنی
در د بیچارہ پریشان ہے کہاں سے اُٹھے
اندھا دھند فائرنگ کا عالم یہ تھا کہ جنگلی اور پالتو جانور بھی اس سے نہ بچ سکے اور ۶ ؍ بندروں سمیت ایک گائے بھی گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گئ۔وادی سے شائع ہونے والے ایک خبر کے مطابق اس سانحہ میں اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم ۷۰؍ افراد زخمی ہوے جن میں ۵۰؍ افراد سیدھے گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس سانحہ میں ۴؍ افراد ۲۱؍ سالہ محمد اقبال ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن تمرہامہ ٹنگمرگ ،۱۹؍ سالہ مدثر احمد پرے ولد غلام رسول پرے ساکن کرشہامہ پٹن، ۲۵؍ سالہ طارق احمد گنائی ولد مرحوم عبدلاحد گنائی ساکن تلگام پٹن اور محمد یعقوب خان ساکن سالوسہ چک کریری موقع پر ہی جان بحق ہوگیے ۔ جبکہ صدر اسپتال میں زخمیوں میں سے ۲۷ ؍ سالہ عبدالقیوم وانی ولد محمد اکبر ساکنہ وانلو حاجی بل ٹنگمرگ زخموں کی تاب نہ لا کر زندگی کی جنگ ہار بیٹھا ۔
اے عشق تیری آن پر ہم سادہ دلوں نے
سر مایہ صد و لعل گہر ہا ر دیا ہے
ہونٹوں کی ہنسی، دل کا سکون، روح کی مسکان
جب کچھ نہ رہا پاس تو سر ہار دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: فاضل مضمون نگار یونیورسٹی آف کشمیر میں زیر تعلیم ہے۔
[email protected]