زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عوامی احتجاج سے ہم نے کیا پایا؟ ٭

زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عوامی احتجاج سے ہم نے کیا پایا؟ ٭

…شیخ جاوید ایوب

ہم نے کیا پایا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر کشمیری کے ذہن میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ سوال توبڑا سادہ سا ہے لیکن اسکا جواب دینا خاصا مشقت بھرا کام ہے ایسا اس لئے کیونکہ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینا  ایک مشکل عمل ہے ۔ یہ ایک ایساسوال ہے جس پر جتنے لوگ غور و فکر کریں گے اتنے ہی جوابات ارسال ہوتے رہیں گے اور ہر جواب ،جواب دینے والے کے ذہن کی ترجمانی و عکاسی کرے گا ۔ جیسی فکر ہوگی ویسا ہی جواب آئے گا۔ ایک خالص اسلامی فکر ہو تو بندہ مومن پر صبغت اللہ کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ اس کی سوچ بدل جاتی ہے، اسکے عقیدے بدل جاتے ہیں۔ راتیں بدل جاتی ہیں دن بدل جاتے ہیں۔ اسکے سوال بدل جاتے ہیں ، جواب بدل جاتے ہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں وہ تذبذب کا شکار نہیں ہوتا، مایوسی کی چادر اسے ڈھاک نہیں پاتیں، وہ منفی حالات سے مثبت نتیجے ہی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیرتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہی درس ملتا ہے۔ مکّے کے شدید حالات نے ہجرت کا دروازہ کھول دیا۔ جب داعی اعظمؐ پر جان کا خطرہ منڈلانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے رختِ سفرباندھتے ہیں۔  سراقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ حالت کی سنگینی تو دیکھئے کہ محسنِ انسانیتؐ کے جان کے لالے پڑے ہیں اور آپؐ مکہ سے مجبورا ہجرت کرمدینے کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ہجرت کا کٹھن سفر، دشمن آپؐ کے تعاقب میں، ایسے سنگین حالات میں بھی آپؐ سراقہؓ یہ بشارت سناتے ہیں اس دن تمہارا کیا عالم ہو گا جس دن کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہونگے۔ جنگ احزاب کی بات کی جائے تو یہی حالات سامنے آجاتے ہیں۔ مدینہ کی چھوٹی سی اسلامی بستی کو صفہ ہستی سے مٹانے کیلئے تمام حریف نیٹو جیسی ایک کولیشن فورس تیار کرتے ہیں اور مدینے پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال مدینے میں رہنے والے مسلمان اپنی دفاع کیلئے خندق کھودنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن حضورؐ کی نظر خندق پر نہیں بلکہ کدیل کی ضرب میں وہ مومنین کو شام کے محلات کی بشارت  سنادیتے ہیں۔حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، راسخ العقیدہ مسلمان عظیم خواب دیکھنا نہیں چھوڑتا ۔ بڑے بڑے ، اعلیٰ وارفع خواب دیکھنا اور دیکھانا سنتِ رسولؐ ہے۔ رواں تحریک کے مثبت پہلوں کی طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ کشمیری قوم نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ جان و مال کی قربانیاں اس قوم کے پائے ثبات کو متزلزل نہیں بنا سکتا اور نہ ہی ظالم کاظلم اسے اپنے حق سے دست بردار کر سکتا ہے۔ غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو ہمیں واضح طور پر دکھائی دے گا کہ گزشتہ چھ ماہ کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران اس قوم کی جھولی میں بہت کچھ آگیا ہے ۔ چند ایک باتیں یہاں مثال میں پیش کی جارہی ہیں۔   جس قوم کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس کے صرف پانچ فی صدلوگ حق خود ارادیت کی جدوجہد کا ساتھ دے رہے ہیں اور بقیہ پچانوے فی صد ہندوستان کے ساتھ امن سے رہنا چاہتی ہیں اس قوم نے ثابت کر دکھایا کہ وہ ایک واحد مقصد رکھتی ہے اور اس واحد مقصد کے حصول کیلئے قوم متحد و منظم ہے اور رہے گی۔وحدتِ مقصد ایک وحدتِ فکر کی متلاشی ہے اور وحدتِ فکر پیدا کرنے کیلئے کشمیر کے Intellectual طبقے کواپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہین و فطین طبقوں کے قلم اور زبا نیں تب چلنا شروع ہو جاتی ہیں جب کوئی عوامی تحریک برپا ہو جاتی ہے اور جب عوامی لیڈران اس تحریک کو اپنے طریقے سے چلانی کی کوشش و سعی کرتے ہیں۔کبھی پروگرامات کو حدفِ تنقید بنایا جاتا ہے توکبھی لیڈرشپ کو۔ایسا کھبی نہیں ہوا کہ اس intellectual طبقے نے کوئی ایسی پالسی واضع کرنے کیلئے اپنی صلاحتیں خرچ کیں ہوں۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لیڈرشپ اور قوم کے ideologues ہی events کو جنم دیتے ہیں ۔ ہماری خوش نصیبی دیکھئے کہ کشمیر میں events  خود بخود وقوع پذیر ہو جاتے ہیں اور اس قوم کو اپنی منزلِ مقصود کی طرف گامزن کرنے میں معاونت کرتے ہیں ۔ اسے رب کا فضل کہیں یا ہماری کم فہمی ،نتیجہ تو بہرحال ہمارے ہی حق میں ہمیشہ رہتا ہے۔ وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سےزمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فرداایک چیز تو طے ہے کہ ہم نے خوف سے آزادی پا لی ہے اور جو قوم خوف سے آزاد ہوکر صرف اللہ پر بھروسہ کرتی ہے اس کو ہر غلامی سے نجات مل ہی جاتی ہے کیونکہ انسان کی غلامی اور آزادی کے درمیان خوف ہی حائل رہتا ہے۔ خو ف سے آزادی ہی دراصل باقی تمام آزادیوں کیلئے دروازے کھول دیتی ہے اور ان کیلئے راہ ہموار کر تی ہے۔انسانوں کی تعداد بھلے ہی کثیر ہو مگر خوف ان کے ویژن کو سمندر کے پانی کے اوپر سفید جاگ  کے مانند کر دیتا ہے، وہ بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ ان سے ان کی انّاچھن جاتی ہے، ان کی خودی دم توڑ دیتی ہے، حوصلے سرد پڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کی ذہانت و فطانت کا بھی جنازہ نکل جاتا ہے۔وہ محکومیت پر راضی ہو جاتے ہیں اور انقلاب کی چنگاری ان کے سینوں میں گل ہو جاتی ہے ۔ وہ جی جی کے مرتے ہیں اور مر مر کے جیتے ہیں۔ان میں اپنے مستقبل کی فکر غائب ہو جاتی ہے وہ اپنے آج کو بچانے کے لئے اپنے کل کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔ وہ ظلم کا ننگا ناچ دیکھنے کی طاقت جٹا تے ہیں مگر ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کی ہمت نہیں جٹا پاتے۔ ایسے قوموں کی تاریخ بڑی تاریک ہوتی ہے۔ لیکن دنیا گواہ ہے کہ کشمیری عوام پورے چھ ماہ حکومتِ وقت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹی رہی اور اپنے حق کے خاطر پورے عظم و استقلال کے ساتھ میدان میں کود پڑی۔ نہ گولیوں کا ڈر نہ پلیٹ چھروں کی فکر۔ بس بے خوف ہوکر اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتے رہے۔   تحریکوں کا دوام اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کس درجہ نئی نسل میں منتقل ہوتی ہیں اگر تحریکوں میں یہ penetrating powerنہیں ہے تو ان کے بقا ،ان کے دوام کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ تحریک کی حیات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے متاثر کن لوگ کس age group سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشمیری عوام کی اس بے مثال تحریک نے آزادی کے سنہرے خواب کو ہر طفل و جوان کی آنکھوں میں سمو دیا۔وہ منظر بھی کیا خوب تھا جب کمسن بچے ہاتھ میں  پرچم لئے اپنے حقوق کے لیے نعرے  بلند کرتے تھے۔ ایسے منظر علامہ اقبال کے اس شعر کی ترجمانی کرتے ہیں   ؎وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائےجسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا  اس تحریک نے نہ صرف عوام الناس کو ایک وحدت میںپرو دیا بلکہ قایدین کی طرف سے بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ یہ تحریک کسی ایک فریق کی تحریک نہیں رہی بلکہ ہرمذہبی جماعت خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتی ہواس تحریک کا حصہ بنیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدوجہد میں ایک wholeness دیکھنے کو ملا اور جو خلا ان تنظیموںکی عدم شمولیت سے پیدا ہوا تھا وہ پر ہو گیا۔قائدین پر عوام کا اتفاق قائم رہا ان کی پالسیوں کو من و عن عملایا گیا۔ ہر ایک نے اپنا اپنا حصہ ادا کیا، کوئی جماعت سڑکوں پر عوام کی رہنمائی کرتی تھی تو کوئی سماجی سطح پر پیدا ہوئے والے مسائل کو دیکھ رہی تھی، کسی نے ہسپتالوں میں لوگوں کو امداد بہم پہنچایا تو کسی نے گھر گھر جاکر لوگوں کے مسائل دیکھے۔ پوری قوم ایک خاندان اور ٹیم کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑی رہی۔اتحاد و اتفاق کا یہ جذبہ قائم رہا تو صرف کشمیری قوم ہی نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کو بھی اس کا فائدہ حاصل ہوجائے گا۔ کشمیر مسلے کی گونج پوری دنیا میں سنا ئی دی۔پاکستان نے قریباََہراہم ملک میں اپنے سفارت کار بھیج کر کشمیر مسلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا یہاں تک کہ UN جنرل اسمبلی میں نواز شریف نے برہان مظفر وانی کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر جو کام گزشتہ دو دہائیوں میں نہیں ہوا تھا وہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہوا ہے۔ یہ مسئلہ کشمیر کے لیے سفارتی سطح کی ایک اہم کامیابی ہے۔کشمیری عوام کی جدوجہد سے حکومتی ڈھانچے میں بھی شغاف پڑ گئے۔ کئی ہند نواز لیڈروں نے بھی عوامی جوش اور جذبوں سے گھبرا کر حکومت مخالف بیان بازی کی۔ اتنا ہی نہیں فاروق عبداللہ نے اپنے مزاج کے برخلاف حریت لیڈران کو مشورہ دے دیا کہ وہ آزادی کی تحریک جاری رکھیںاور اپنے پارٹی ورکروں سے کہا کہ وہ عوامی احتجاج کا بھرپور ساتھ دیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے حکومت کی بہت سی ایسی غلط اور قوم دشمن پالسیوں پر بھی روک لگ گئی جن کے ذریعے سے کشمیر کے تشخص کو برباد کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ان میں قابلِ ذکر سینک اور پنڈٹ کالنیوں کی منصوبہ بندی تھی۔ مشرقی پاکستانی پناہ گزینوں کا مسئلہ حالیہ دنوں میں پھر سے ابھرنے لگا ہے مگر  ؎رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں ابتکمگر کیا غم کہ میری آستیں میں یدِ بیضا مزید یہ کہ کشمیری عوام نے ظلم و جبر میں جینا سیکھ لیا ہے، افراط و تفریط سے پاک زندگی جینا سیکھ لیا ہے۔آزادی دراصل بہت چیزوں سے آزادہونا مانگتی ہے اور کشمیری قوم زمانے کے بدلتے ہواؤں کے ساتھ سنجیدہ، دلیر اور دور اندیش بنتی جارہی ہے۔ یہ وہ علامتیں ہوتی ہیں جو کسی بھی قوم کو صدیوں کے مصائب سے نجات دلانے کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.