جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یک روزہ اجلاس

جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یک روزہ اجلاس

سرینگر//جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اہم اجلاس ۲۸؍اگست۲۰۱۷ء؁ بروز پیرکو مرکز جماعت پر امیر جماعت اسلامی غلام محمد بٹ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میںتنظیمی صورتحال اور دعوتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا اور عالمی صورتحال علی الخصوص ملت اسلامیہ کی موجودہ زبوں حالی کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ مسئلہ کشمیر کے لٹکتے رہنے سے جنوبی ایشیا کے خطے میں جو بے چینی ، بدامنی اور غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے علی الخصوص دو برادر ہمسایہ ممالک ہند و پاک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس حقیقت کو اُجاگر کیا گیا کہ یہ مسئلہ جب تک یونہی لٹکتا رہے گا، تب تک صورتحال بدلنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اس میں مزید ابتری پیدا ہونے کا بھر پور اندیشہ ہے۔
اجلاس کے آخر پر مندرجہ ذیل قرار دادیں اتفاق رائے سے پاس ہوگئیں۔
(۱)۔ مسئلہ کشمیرجو۱۹۴۷ء؁ سے لٹکتا آرہا ہے کے متعلق جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع اس حقیقت کا برملا اظہار کرتا ہے کہ جب تک یہ مسئلہ جموں وکشمیر کے پشتنی باشندوں کی اُمنگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یا تو اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں پاس شدہ قرار دادوں کے مطابق یا سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے حتمی طور پر عادلانہ طریقے پر حل نہیں کیا جاتا، تب تک جنوبی ایشیا کے اس عظیم خطے میں حقیقی امن و امن اور خوشحال زندگی کا قیام ناممکن ہے۔اس مسئلے نے دو ہمسایہ برادر ممالک ہند و پاک کے درمیان بے چینی، بدامنی اور غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں اب تک دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کئی جنگیں ہوئی ہیں، جن میں لوگوں کے جان و مال کو بے انداز نقصان ہو اہے اور آئے روز ان ممالک کے درمیان کنٹرول لائن پر اکثر و بیشتر دونوں اطراف کے افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے جس کی زد میں آکر نزدیکی بستیوں کے بے گناہ باشندوں کو مال و جان کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اور آج تک دونوں جانب سینکڑوں بے گناہ شہری از جان ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع، اقوام عالم اور علی الخصوص اقوام متحدہ کے ذمہ داروں کے علاوہ ہندو پاک کی دو برادر ہمسایہ مملکتوں کے سربراہوں پر بھی زور دیتا ہے کہ وہ آگے آکر اس دیرینہ مسئلے کو حتمی طور پر حل کرانے کی خاطر، یاتو اقوام متحدہ میں پاس شدہ قرار دادوں کو عملائیں یا سہ فریقی مذاکرات جس میں جموں وکشمیر کے حقیقی نمائندوں کی بحیثیت بنیادی فریق کی شرکت لازمی ہو،کا انعقاد کرکے اس مسئلے کا ایک ایسا حل تلاش کریں جو یہاں کے عوام کے اُمنگوں کا ترجمان ہو۔
(۲)۔ جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع موجودہ دور میں ملی اتحاد کی ناگزیر ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، ریاست کی تمام دینی اور حریت پسند سیاسی تنظیموں اور قائدین اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں سے پُر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ ملت کے مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی جو ملت کے مستقبل کے لیے مہلک ہے، کو کم کرانے کی طرف فوری طور پر متوجہ ہوجائیں۔علماء کرام اور دانشور حضرات کی یہ منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کی برکات اور انتشار و افتراق کی نحوستوں سے قوم کو خبردار کرتے ہوئے، مسلکی اور گروہی اختلافات سے بالاتر ہوکر دین کے بنیادی اصولوںپر ملی اتحادکو فروغ دینے کی خاطر تمام ضروری اقدامات کریں۔اُمت کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کے لیے نت نئے افکار کو فروغ دیا جارہا ہے، دین کی آڑ میں لادین نظریات منظم انداز سے پھیلائے جارہے ہیں اور بڑی تشویشناک انداز سے نوجوانوں کوغیر محسوس انداز فکری ارتداد کا شکار بنایا جارہا ہے۔ ان تمام چلینجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اُمت میں بالخصوص علماء کی سطح پر وسیع تر اتحاد وقت کا تقاضا ہے۔ جماعت اسلامی ، ماضی کی طرح ایسی تمام اتحادی کوششوں کے مخلصانہ تعاون کی وعدہ بند ہے اور یہ تعاون ملت اسلامیہ کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط و مربوط کرنے تک جاری و ساری رہے گا۔
(۳)۔ جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی پہچان اور مسلمانوں کی دینی شناخت کے خلاف رچی جانے والی سازشوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کے لیے سازشیں رچائی جارہی ہیں۔ عدلیہ اور قانون کا سہارا لے کر دفعہ370اور 35A کوختم کرنے کے لیے کوششیں ہورہی ہیں۔حالانکہ یہ دونوں دفعات مسئلہ کشمیر کے حل تک یہاں کے مسلم تشخص کے لیے ضروری ہیں اور ان کی حفاظت کرنا بھی ہماری اجتماعی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جماعت اسلامی ریاست کی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش کو خطرناک تصور کرتی ہے ۔
(۴)۔ جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع ریاست میں عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی گہری ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے، نوجوانوں کو بے بنیاد کیسوں میں ملوث کرکے انہیں گرفتار کرنے کے سلسلے کو بند کرنے پر زور دیتا ہے کیونکہ ان بے جاگرفتاریوں سے عوام میں ایک خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے عام لوگ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوکرقلبی سکون سے محروم ہوگئے ہیں۔نیز جماعت کا یہ نمائندہ اجلاس اپنے تنظیمی ذمہ داران ناظم شعبہ سیاسیات ایڈوکیٹ زاہد علی ، امیر تحصیل کولگام شیخ فاروق احمد اور امیر تحصیل اسلام آباد گلزار احمد بٹ کو بے بنیاد کیسوں میں گرفتار کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اُن کو مفروضے پر مبنی کیس میں ملوث کرنے کے عمل کو ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کرکے اُن دونوں سمیت جملہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ نیز یہ نمائندہ اجتماع اُن تمام محبوسین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مختلف جیلوں اور زندان خانوں میں بند پڑے ہیں جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جن پر اس حوالے سے مختلف الزامات لگواکر عمر قید کی سزائیں بھی دلوائی گئی۔ جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع ان تمام سیاسی نظر بندوں اور قیدیوں بشمول دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی صاحبہ اور اُن کی سیکریٹری فہمیدہ صوفی کی فوری رہائی کا زور دار مطالبہ کرتا ہے۔
(۴)۔ جماعت کا یہ نمائندہ اجتماع انتظامیہ کی جانب سے عدالتوں میں قیدیوں کے کیسوں کو پیش کرنے میں جان بوجھ کر تاخیر کرنے، نیز عدالت کی جانب سے رہائی حاصل ہونے کے فوراً بعد دوبارہ گرفتار کرنے کے عمل پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ یہاں جمہوری دعوؤں کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں اور قانون کو محض ایک مذاق بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ اس کی مثال سوپور سے تعلق رکھنے جماعت کے۸۰؍سالہ رکن شیخ محمد یوسف ہیں جنہیں عدالت سے رہائی حاصل ہونے کے باوجود پولیس اور مقامی انتظامیہ نے گزشتہ چھ ماہ سے مختلف فرضی کیسوں میں مقید رکھا ہواہے۔
(۵)۔ جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع ریاست میں حال کے مہینوں میں نہتے نوجوانوں کے قتل عام پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات کو کشمیریوں کی نسل کشی سے تعبیر کرتاہے۔ فوج او رپولیس کی جانب سے طاقت کا بے جا استعمال اور پُر امن احتجاجی نوجوانوں کو راست گولیاں ماردینا جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ جماعت سمجھتی ہے کہ فوج کو حاصل خصوصی اختیارات اور فرقہ پرست ذہنیت کی جانب سے وردی پوشوں کو حاصل ہونے والی حوصلہ افزائی نے یہاں انسانیت کا قتل عام کرنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ جماعت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو اس سنگین صورتحال کا جائزہ لینے کی اپیل کرتی ہے۔
(۶)۔ جماعت اسلامی کا یہ نمائندہ اجتماع ہندوستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے حال ہی میں طلاق ثلاثہ کے حوالے سے حکومت ہند کو’’ طلاق‘‘ کے مسئلہ پر قانون سازی کرنے کی ہدایات دینے کو مسلمانوں کے دینی معاملات میں مداخلت قرار دیتا ہے۔ نیزتشویشناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے پیچھے فرقہ پرستانہ ذہنیت کام کرتی ہے تاکہ مسلمانوں کو اُن کے دینی شناخت سے محروم کیا جاسکے۔

ناظم شعبہ نشر واشاعت

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.