۔وفا کی جس میں بو ہو وہ کلی نہیں ملتی

۔وفا کی جس میں بو ہو وہ کلی نہیں ملتی

وفا کی جس میں بو ہو وہ کلی نہیں ملتی
(٭… طٰس رمضان حرہ( ہامرے پٹن
عید الاضحی جسے عید قربان بھی کہتے ہیں، کے ایام میں مسلمان حضرت ابراہیم ؑکی سنت کو یاد کرتے ہیں۔اللہ کی راہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی میں مسلمان پوری دنیا میں اس موقع پرلاکھوں کی تعداد میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ یہ سب اللہ کوخوش کرنے یعنی رضا الٰہی کے لیے ہوتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ سلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ اُنہیں آزمائش میں پورا اُترتے دیکھ کر اسماعیل علیہ السلام کی جگہ چہرے کے نیچے ایک جانور کو رکھ دیا جس سے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ اللہ رب العزت کی جانب سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے ہی کو قربان کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟کس اہم مقصد کے لیے ابراھیم علیہ سلام خوشی خوشی بیٹے کو قربان کرنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے؟آپ اندازہ کیجیے کہ۸۰؍برس کی عمر تک اولاد کے لیے ترستے رہنے کے بعد جب اُنہوں نے طویل مدت تک انتظارکیا، تب جا کر اللہ نے اُنہیں ایک بیٹاعطا کیاتھا۔اس بیٹے کے ساتھ کو ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بناکر رکھ دیا تھا، اُن کے ساتھ اُمیدیں وابستہ کی تھی اور وہ اسماعیل ؑ سے کافی محبت کرتا تھا۔انہوں نے اسے اپنی محبت کی چھت سے محفوظ بناتا ہے۔اپنی فکرمندی اور شفقت کی مضبوط دیواروں سے اسکی حفاظت کرتا ہے۔اپنی تربیت اور توجہ سے اسکے در و دیوار سجاتا ہے۔اپنے مستقبل کو اسکی زندگی کے آئینے میں دیکھنا شروع کیا تھا۔ہر تکلیف برداشت کرتا ہے۔اب جو متاع ہے وہ وہی اک نرینہ ولد صالح تھا۔عطیات خدا وندی میں اسے اعلی مقام حاصل ہے۔لیکن ایک رات ایسی آتی ہے کہ امام الناس کو اپنے ہاتھوں بنائے محل کو توڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔اور وہ بھی اسی معمار کو جس نے اپنے ہاتھوں اپنی امنگوں اور آرزوں اور خوابوں بنایا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی آزمائشی زندگی کی مشکل ترین آزمائش تھی جسے اُنہیں پار کرنا تھا۔
یہ غور طلب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو کیوں اپنے اس بیٹے ہی کو قربان کرنے کا حکم دیا؟ جبکہ اور بھی چیزیں قربانی کے لیے ان کے پاس تھی۔انسان کی سب سے اہم چیز اس کا نصب العین اور اس کا مقصد حیات ہوا کرتا ہے۔جس کے لیے وہ محنت اور مشقت اٹھاتا ہے۔تکالیف برداشت کرتا ہے۔نصب العین سے ہی فرد کی شخصیت اوراس کی ذہنی سطح کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جس قدر مقصد اعلیٰ ہوتا ہے اسی قدر اس کے لیے قربانی درکار ہوتی ہیں۔ مقصد کا تعلق مادیت کے ساتھ ہو تو وہ آدمی کو اس دائرے مادہ کا دیوانہ بنا دیتا ہے۔ اس دوڑ میں وہ کسی غلط اور صحیح کی تمیز کا پابند نہیں ہوتااور اگر اسکا مقصد خالق کائنات سے جڑا ہو تو اس کی سوچ اعلیٰ اور فطرت کے مطابق بن جاتی ہے ۔اس کے اندر عدل و قسط کی اعلی صفات پروان چڑھتی ہیں۔ پھر وہ ہر چیز کا اسکا جائز مقام اور حق دیتا ہے۔ وہ خالق ومخلوق میں فرق سمجھتا ہے۔ وہ خالق کا حق مخلوق اور مخلوق کا حق خالق کو نہیں دیتا ہے۔ یہ صفت حضرات انبیاء علیہ السلام کی مبارک زندگیوں میں اعلیٰ اور اتم درجے کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اور پھر ان ان اصحاب میں بھی اسکا عکس دکھائی دیتا ہے، جو اس پاک گروہ کے ساتھ نسبت اور مناسبت دونوں رکھتے ہیں۔
ہر انسان اپنے مقصد کیلے قربانی کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے۔اسلام یہ قطعًا یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ ایک بندہ مومن کے مقصد حیات میں کوئی دوسری چیز حائل ہوجائے۔چاہے مال ودولت ہو،اولاد و ازواج ہوںیا کہ خود انسان کی زندگی۔ایسی صورت میں انسان کو بار بار ان چیزں کے انفاق کی طرف رغبتًا بھی اور حکمًا بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ کئی یہ چیزیں تمہیں مقصد حیات سے غافل نہ کردے۔اسلئے پہلے ان کو راستے سے ہٹانے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔آپ قرآن کے مطالعہ سے یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں کئی بھی قرآن میں جہادو قتال کا حکم آیا ہے وہاں اکثر مقامات پر مال کو جان پر مقدم کیا گیا ہے۔جب ایک انسان اپنے مقصد حیات سے غافل ہو کرسفلی صفات کے درجہ میں چلا جاتا ہے تو اسکی زندگی کا مقصد مال ومتاع سے متعلق اشیاء کے ارد گرد گومناشروع کرتاہے۔اسی لئے ایک مومن کو حکم دیا جاتا ہے کہ پہلے اپنے اندرمال کو قربان کرنے کا جذبہ پیدا کریں،پھر آپ اللہ کی عطا کردہ اس جان کو بھی قربان کرسکتے ہو۔
لیکن اصل چیز مال قربان کرنا نہیں ہیں۔بلکہ اس محبت کو قربان کرنا ہے جو اللہ کی محبت میں حائل ہوجاتی ہے۔اورمقصد حیات تک پہنچنے میں بھی سدراہ بن جاتا ہے۔ قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ ’’ تم ہرگز نیکی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے نہ خرچ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو ‘‘ (آل عمران92)
حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جو حکم دیا جاتا ہے۔اور پوری انسانیت کے لئے یہ اسوہ اور مثال قائم کی جاتی ہے کہ دیکھو ایک بندہ خدا اپنے رب کی محبت میں ہر ایک محبت کو قربان کرنے کا جذبہ اور سلیقہ کس حد تک رکھنے والا ہونا چاہیے۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی محبوب ترین شئے یعنی اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرواور وہ اپنے رب کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اسطرح اپنے رب سے غایت درجہ کی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ حضرت ابراھیم کے لئے بہت ہی صبر آزما مرحلہ اور سخت امتحان تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس امتحان میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی کامیابی پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیاہے۔لیکن جب ہم اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں ،تو کیا ہم اللہ کی محبت میں اپنے مال و جان کیا بلکہ جانورکی محبت کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ مراسم عبادات کی ادائیگی کے لیے یوم عرفہ کو بازار سے جانور خرید کر اپنی بڑھائی اور سخاوت کی رعب لوگوں کے دلوں میں بٹھاتے ہیں۔ہم یقینًا جانور ذبح کرتے ہیں، لیکن کیا اس عید پر ہم اس جانور کو قربان کرتے ہے جو ہمیں زیادہ محبوب ہوتا ہے؟ جب ہم ایک زمیندار کی بات کرینگے توہم دیکھتے ہے کہ اسے زیادہ محبت گائے کے ساتھ ہوتی ہے؟۔کیا وہ اللہ کی محبت میں اس گائے کو قربان کرتا ہے؟جسے اس نے ایک سال تک محبتوں اور محنت سے پالا ہو اور قربانی کے وقت اسکی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہوں۔اس طرح وہ خالق کی محبت میں مخلوق کی محبت کو قربان کرنے کا مظاہرہ کرتا، بہت کم ملیں گے۔ہمارے اسلاف میں ایسے بہت گزرے ہیں جو قربانی کے وقت ہی دوسرا جانور خریدتے اور پورے سال اسے اپنے ہاتھوں پالتے پوستے، پھر اگلی عید پرقربان کرتے۔ ایسے جانور کو ذبح کرتے وقت انسان کو یقینا جذبۂ محبت کی قربانی کا احساس ہوتا ہوگا، لیکن آج یہ جذبہ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ آج جو شخص ایک گائے کی محبت کو قربان کرنے کیلئے تیار نہیں جسکو اس نے اپنے گھر میں دو یا پانچ سال پالا پوسا ہو۔جب ایک زمانے میں ہندوستان میں گائے کی قربانی کے حوالے سے مسائل اٹھے تھے (آج بھی اُسی طرح گائے کو لے کر مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں، اور بیشتر ریاستوں میں گائے کی قربانی پر پابندی عائد کردی گئی اور جہاں پابندی نہیں ہے وہاں مسلمان از خود گائے کی قربانی سے اجتناب برتتے ہیں۔)تومولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے لکھا تھا کہ:’’ میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی ۔ جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جہاں گائے معبود کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ اگے چل کر اپنی ہم سایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کی تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ وہ اشربوا فی قلوبھم العجل ، لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب مسجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک کہ وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھا لے۔ اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جس نے نماز پڑھی جیسے ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا، (دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کو توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔‘‘( تفہیم الاحادیث جلد ۴)کیا وہ کل ضرورت پر اپنی جان یا اپنی اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرسکتا ہے۔جانور کی قربانی دیکر ہم یہ زبان حال سے یہ اعلان اور عہد کررہے ہوتے ہیں کہ ہمارے مال و جان کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔اور ہم اسی حکم کے مطابق زندگی جینا چاہتے ہیں۔اسکے حکم میں ہم کسی غیر کی شرکت برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔
اللہ جس کام کا بھی حکم دیں اسے محبت اور اطاعت کے جذبے کے تحت انجام دینا ایمان کا حصہ ہے۔جسے ایمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسی لئے فرمایا تھا کہ جس کے دل میں اللہ کی راہ میں لڑنے کی طلب نہ ہو وہ منافق ہے۔منافق تو اللہ سے زیادہ اپنی جان کو پیارا رکھتے ہیں۔اسی لئے مسلمانوں کو اس مرض سے آگا کیاگیا۔اگر کوئی چیز اللہ کی محبت میں حائل ہوجائے اسکی قربانی لازم ہوجاتی ہے۔چاہے مال،جان،اولاد،کرسی،یا کہ کیرئیرکا بت ہی کیوں نہ ہواللہ کے لیے قربان ضرور کرنا ہے۔ اسی لئے اس عید کے موقعہ پر ہمیں اپنی محبت کا احتساب کرنا چاہے کہ ہماری محبت کا پلڑا کس طرف جھکا ہوا ہے۔اللہ کی محبت کی طرف یاکہ مال و منال کی طرف۔اللہ کی محبت میں سب کچھ لٹانے کا جذبہ ہی ہمیں وہ سب کچھ عطا کرسکتا ہے جس کے لیے ہم دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ اسلامی کی تمام عبادات انسان کے دل میں اللہ کی محبت پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور اللہ کے ساتھ پیدا ہونے والی یہ محبت پھر بندے کی ہر ادا سے ٹپک پڑتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی محبت عطا فرمائیں اور ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے۔آمین.

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.