دنیا کی بڑی طاقتور سیاسی شخصیت، روس کے صدر ولادیمیر پوتن بھارت کے دورے پر آ چکے ہیں اور ان کی آمد سے قبل بھارت کی راجدھانی دہلی کو زبردست طریقے سے سجایا گیا تھا اور روسی صدر کا بہت ہی پرتپاک طریقے سے استقبال کیا گیا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کار میں بیٹھے، کیونکہ وہ یعنی روسی صدر، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا خاص اور بہترین دوست مانتے ہیں۔روسی صدر نے بھارت کا سفر کرنے سے چند گھنٹے قبل بھارت کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ’آج تک‘ اور ’انڈیا ٹوڈے‘ کے صحافیوں سے ایک طویل انٹرویو میں کہا کہ میرا دورہ بھارت صرف دو ممالک کے درمیان آپسی تعلقات کو بڑھاوا دینا یا دوستانہ تعلقات قائم کرنا نہیں بلکہ پوری دنیا، خاص کر برصغیر میں تبدیلیاں لانا مقصد ہے۔انڈیا ٹوڈے اور آج تک گروپ سے وابستہ خواتین صحافی انجنا اوم کشپ اور گیتا موہن نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ 100منٹ تک انگریزی اور ہندی میں انٹرویو کیا جو رات کے نو بجے ملک کے اس سب سے بڑے نیوز نیٹ ورک پر نشر ہوا۔ انڈیا ٹوڈے اور آج تک کے چیف ایڈیٹر ارون پوری اور منیجنگ ایڈیٹر کلّی پوری نے بھی روسی صدر کے ساتھ ان کے سرکاری محل میں تفصیلی ملاقات کی اور انہیں دنیا میں ہو رہی تبدیلیوں کے دوران بھارت۔روس رول یا ذمہ داریوں سے متعلق سوالات پوچھ کر دنیا کو باخبر کیا۔ بھارت کے اس بڑے میڈیا ادارے کو روسی پریس نے صدر پوتن کے ساتھ انٹرویو کا انتخاب کیا تھا۔
اس انٹرویو میں روسی صدر نے کھل کر کہا کہ ہمیں بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ دو طرفہ تعلقات، آپسی تجارت، معاشی ترقی یا مختلف شعبوں میں اشتراک پر ہی بات نہیں کرنی ہے بلکہ دنیا میں بدلتی ہوئی سیاسی و سماجی صورتحال پر بھی بات کرنی ہے، کیونکہ دنیا کے یہ دو اہم ممالک یعنی روس اور بھارت مل کر دنیا بھر کے ممالک کے لئے، خاص کر برصغیر میں ایک اہم رول نبھا سکتے ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پوتن نے صاف الفاظ میں کہا کہ روس۔یوکرین جنگ، فلسطین۔اسرائیل جنگ کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہئے تاکہ برصغیر میں امن و سلامتی قائم ہو جائے اور کسی بھی ملک کو اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے لوگوں کے مال و جان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ روس بھارت کا پرانا دوست مانا جاتا ہے اور بھارت کے ساتھ اس کے سیاسی، تجارتی اور دفاعی مراسم ابتدا سے ہی مضبوط و مستحکم ہیں۔بھارت کو جب بھی کوئی مشکل گھڑی درپیش آئی تو روس نے اس ملک کا بھرپور ساتھ دیا اور دوستی کا فرض بخوبی نبھایا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ چند ممالک اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے غریب ممالک کو اپنا غلام بنا کر مختلف حربے آزماتے رہے ہیں۔ دہشت گردی کی آڑ میں عام لوگوں کا خون بہا دیتے ہیں، مذہبی منافرت کو بڑھاوا دے کر دنیا میں نفرت پھیلائی جاتی ہے، منشیات کا پھیلاؤ ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے تاکہ کوئی اور ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے۔
جہاں تک روس۔بھارت آپسی تعلقات کا تعلق ہے، موجودہ دور میں یہ دوستی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ برصغیر کے تین اہم ترقی یافتہ اور تجارت و آبادی کے لحاظ سے پوری دنیا میں اہم ممالک ۔بھارت، روس اور چین شامل ہیں۔ اگر یہ تین ممالک آپس میں ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی ٹھان لیں، جیسا کہ بھارت کے طاقتور عوامی لیڈر نریندر مودی کا جذبہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو ’وشو گرو‘ اور دنیا کی سب سے بڑی تیسری اقتصادی طاقت بنانے کے لئے سرگرم ہیں،جسے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو گا۔برصغیر کے یہ تین بڑے ممالک پوری دنیا کو ہر لحاظ سے خوشحال اور طاقتور بنا سکتے ہیں اور امن و سلامتی اربوں لوگوں کا مقدر بن سکتا ہے۔ جنگ و جدل، دہشت گردی، مذہبی منافرت اور شدت پسندی، غربت و مفلسی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ روس اور بھارت مل کر دنیا میں ایک نئے بلاک کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دو ممالک کی کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی اور دنیا کے کتنے ممالک اس دوستی کے دائرے میں آسکتے ہیں۔




