سری نگر ،: وادی کشمیر اس وقت ایسی سخت سردی کی لپیٹ میں ہے جس نے گزشتہ 17 برس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ درجہ حرارت گرنے سے لوگوں کی روزمرہ زندگی شدید متاثر ہو چکی ہے، جب کہ بعض مقامات پر چلّۂ کلان جیسی ٹھنڈ نومبر میں ہی محسوس کی جا رہی ہے۔
جمعہ کی صبح سرینگر کا کم سے کم درجہ حرارت منفی 4.5 ڈگری ریکارڈ ہوا، جب کہ سرینگر ہوائی اڈے پر یہ منفی 6.4 ڈگری تک جا پہنچا۔ کئی اضلاع میں صورتِ حال مزید ابتر ہے، شوپیاں میں منفی 6.7 ڈگری نے سردی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔
تاہم اس سرد لہر نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر جو اثرات ڈالے ہیں، وہ اس بار زیادہ نمایاں ہیں۔
ڈل جھیل میں یخ بستہ ہوائیں شکارا چلانے والوں کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن گئی ہیں۔ شکارا چلانے والے فیاض احمد نے بتایا:
’صاحب، صبح کے وقت تو ہاتھ جمنے لگتے ہیں، چپو پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پانی کی سطح پر پتلی برف بھی بنتی ہے، جس سے شکارا آگے بڑھانے میں دقت ہوتی ہے۔ اس سردی میں سیر کرنے والے سیاح کم نکلتے ہیں، رزق پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔‘
فیاض کے مطابق گزشتہ چند برس میں نومبر میں ایسی ٹھنڈ کم ہی دیکھی گئی تھی، لیکن اس سال سردی نے وقت سے پہلے ہی شدت اختیار کر لی ہے۔
شکارا اسٹینڈ پر موجود ایک اور نوجوان فیاض خان نے کہا:’سڑکوں پر دھند ہے اور جھیل پر ہوائیں تیز، ہم لوگ روزانہ گرم پانی ساتھ رکھتے ہیں تاکہ ہاتھ تھوڑا گرم ہو جائیں۔ لیکن پھر بھی سردی جسم کا زور توڑ دیتی ہے۔‘
سرینگر کے لال چوک، مہاراج بازار اور نوہٹہ میں کئی دکانداروں نے بتایا کہ شدید ٹھنڈ نے خرید و فروخت پر بھی اثر ڈالا ہے۔
کپڑوں کے تاجر شاہد حسین کے مطابق:’نومبر میں لوگ عام طور پر جاڑے کے کپڑے خریدنے آ جاتے ہیں، لیکن اس بار ٹھنڈ اتنی اچانک بڑھی کہ لوگ گھروں سے نکلنے میں ہی ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔‘
شہر کے کئی علاقوں میں سب سے زیادہ مسئلہ پانی کی فراہمی کا پیدا ہوا ہے۔نوہٹہ کے رہائشی ارشاد بٹ کا کہنا تھا:’صبح پانچ بجے پائپوں سے پانی نہیں آتا، کہیں کہیں لائنیں مکمل منجمد ہو جاتی ہیں۔ ہمیں گرم پانی ڈال کر راستہ کھولنا پڑتا ہے۔ گھر کے چھوٹے بچے بھی سردی سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‘
وادی کے بالائی علاقوں میں سردی کی شدت کہیں زیادہ ہے۔ زو جیلا پاس میں درجہ حرارت منفی 16 ڈگری تک گرنے سے سرد ہوائیں سوئیوں کی طرح چبھ رہی ہیں۔
گاندربل کے دراس روڈ پر ایک ڈرائیور نے بتایا:’سردی اتنی ہے کہ گاڑی کا انجن صبح اسٹارٹ نہیں ہوتا، ڈیزل جم جاتا ہے۔ برفانی ہوا چہرہ جلا دیتی ہے۔ زو جیلا میں کھڑے رہنا چند منٹ سے زیادہ بھی آسان نہیں۔‘
سخت سردی نے عام شہریوں کو بھی ذہنی اور جسمانی طور پر پریشان کر دیا ہے۔ایک خاتون شائستہ جاوید نے بتایا:’صبح سویرے بچوں کو اسکول بھیجنا مشکل ہو گیا ہے۔ گھر میں ہیٹر چلانے کے باوجود کمروں میں ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے۔‘
بزرگ شہری غلام حسن کا کہنا ہے:’یہ سردی نومبر میں کم ہی پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چلّۂ کلان نے اس بار جلدی دستک دے دی ہے۔‘
محکمہ موسمیات نے اگلے چند روز تک موسم خشک مگر بے حد سرد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آسمان صاف رہنے سے رات کے وقت زمینی سطح تیزی سے ٹھنڈی ہو رہی ہے، جس کے باعث درجہ حرارت مزید گرنے کا امکان ہے۔
حالیہ سرد لہر نے وادی میں نہ صرف سردی کا احساس بڑھا دیا ہے بلکہ روزمرہ زندگی پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ڈل جھیل کے شکارا والوں سے لے کر بازاروں کے دکانداروں تک، اور گھروں میں بیٹھے عام شہریوں تک سبھی اس سوال میں مبتلا ہیں کہ نومبر میں اتنی شدید ٹھنڈ آخر کہاں سے آ گئی۔
اگر موسم یہی رہا تو ماہرین کے مطابق دسمبر اور چلّۂ کلان اس سال معمول سے کہیں زیادہ سخت ہو سکتے ہیں۔





