جمعہ, ستمبر ۱۹, ۲۰۲۵
26.1 C
Srinagar

کشمیر میں کسان دھان کی کھیتوں میں مصروف لیکن امسال مایوس و غمگین

سری نگر: وادی کشمیر میں ماہ ستمبر کسان طبقے سے وابستہ لوگوں کے لئے انتہائی اہمیت اور خوشی و شادمانی کا مہینہ ہے کیونکہ اسی مہینے میں سیب کی فصل بھی تیار ہوتی ہے اور دھان فصل بھی تیار ہو کر کاٹی جاتی ہے۔تاہم امسال جہاں قومی شاہراہ کئی روز بند رہنے سے میوہ صنعت سے وابستہ کاشتکار پریشان ہیں وہیں دھان فصل اگانے والے کسان بھی مایوس نظر آرہے ہیں کیونکہ حالیہ سیلاب اور خراب موسمی صورتحال نے کئی علاقوں میں اس فصل کو بے تحاشا نقصان پہنچایا۔

واضح رہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے وادی کے کئی علاقوں میں دھان کے کھیت زیر آب آگئے جس سے یہ فصل مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور کئی علاقوں میں خراب موسمی صورتحال نے فصل کو بے تحاشا نقصان پہنچایا۔وادی میں ان دنوں بھی کسان اپنے کھیت کھلیانوں میں دھان فصل کی کٹائی کے ساتھ حسب معمول مصروف ہیں لیکن آج ان کے چہروں پر مسرت و شادمانی کے بجائے مایوسی اور غم کے آثار نمایاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ فصل امسال بھی اچھی تھی لیکن سیلاب نے اس کو تباہ کردیا۔

سری نگر کے مضافاتی علاقہ بمنہ سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد نامی ایک کاشتکار نے یو این آئی کو بتایا: ‘ہماری زرعی اراضی جو قریب 20 کنال پر مشتمل ہے، امسال بھی فصل سے لہلہا رہی تھی، حسب معمول اچھی پیداوار کی توقع تھی لیکن خراب موسمی صورتحال نے اس کو تباہ و بر باد کر دیا’۔

انہوں نے کہا: ‘دھان کی فصل تیار تھی، ہم کاٹ رہے تھے کہ موسم نے کروٹ بدلی، کھیت میں پانی جمع ہوا،کھڑی فصل بھی گرگئی اور موسم کی خرابی نے طول پکڑا جس نے فصل کو مکمل طور پر خراب کر دیا’۔ان کا کہنا تھا: ‘ہم سال بھر اس کے تیار ہونے کے منتظر تھے، کیونکہ اس سے گھر میں سال بھر کے کھانے پینے کا انتظام ہوتا تھا،اس فصل سے ہمارے مویشیوں کے چارے کا بھی بندوبست ہوتا تھا، اس پر کھاد، مزدوروں کی صورت میں کافی خرچہ بھی آیا لیکن یہ سب چشم زدن میں ہی ختم ہوگیا’۔
غلام علی نامی ایک کسان نے بتایا: ‘دھان کی فصل تیار تھی، ہم اس کے کاٹنے کی تیاری کر رہے تھے کہ سیلاب نے ہمارے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا’۔انہوں نے کہا کہ ہم نے امسال کھیت سے ایک دانہ بھی گھر نہیں لایا سب کچھ کھیت میں سڑا پڑا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ رہی سہی کسر مزدور نکال رہے ہیں کیونکہ انہوں نے مزدوری میں کافی اضافہ کردیا ہے۔

بڈگام کے نذیر احمد نامی ایک کاشتکار نے بتایا: ‘ہماری فصل تیز ہوائوں کے نتیجے میں گر گئی ہے، جس سے کافی نقصان ہوا ہے، اب مزدور اس قدر مزدوری طلب کرتے ہیں کہ اس سے بہتر یہی ہے کہ فصل کو کھیت میں ہی پڑا رکھا جائے’۔
انہوں نے کہا: ‘میں نے سال گذشتہ فی کنال ایک ہزار روپیے دئے تھے وہی مزدور امسال 2 ہزار روپیے سے کم مزدوری کی مانگ کر رہے ہیں’۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں زرعی اراضی ہر گذرتے سال کے ساتھ سکڑتی جا رہی ہے۔

یہاں زرعی اراضی پر یا سیب کے باغ لگائے جا رہے ہیں یا کمرشل ڈھانچے تعمیر کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ باہر کے چاول پر منحصر ہوئے ہیں۔

محمد حسین نامی ایک کسان نے بتایا: ‘ہم تو پہلے ہی باہر سے آنے والے چاول پر منحصر تھے کیونکہ زرعی اراضی ہر برس کے ساتھ بہت تیزی سے سکڑ رہی ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘امسال زیادہ مشکلات ہوں گے کیونکہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں امسال چاول کی انتہائی کم پیدوار حاصل ہوگی’۔

Popular Categories

spot_imgspot_img