بدھ, اگست ۶, ۲۰۲۵
28 C
Srinagar

قدرتی آفت :اترا کھنڈمیں ’فلیش فلڈ‘ سے تباہی ،چار افراد ہلاک، متعدد فوجیوں سمیت 100 سے زیادہ لاپتہ

مانیٹر نگ ڈیسک

سرینگر: ملک کی شمالی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے دھرالی میں بادل پھٹنے کے بعد آنے والے فلیش فلڈ میں چار افراد کی موت ہو گئی ہے جبکہ 100 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جن میں انڈین فوج کے جوان بھی شامل ہیں۔ نائب وزیر دفاع سنجے سیٹھ نے خبر رساں اجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی)سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صورتحال سنگین ہے۔ ہمیں چار افراد کی موت اور تقریبا 100 لوگوں کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی ہے۔ ہم ان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔‘

منگل کو اترکاشی ضلع کے دھرالی میں بادل پھٹنے کا یہ واقعہ پیش آیا جب پانی کی سطح میں اچانک اضافہ ہونے سے دھرالی گاوں میں شدید نقصان ہوا ہے۔اترکاشی کے ضلع مجسٹریٹ پرشانت آریہ نے میڈیا کو بتایا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق چار لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور کچھ املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔اسی دوران ڈی آئی جی این ڈی آر ایف محسن شہیدی نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق ’اس واقعہ میں 40 سے 50 مکانات بہہ گئے ہیں اور درجنوں افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے۔‘

آرمی کے نو فوجی بھی لاپتہ، آرمی کیمپ بھی متاثر

فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل منیش سریواستو نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ 14 راجپوتانہ رائفلز کے کمانڈنگ آفیسر کرنل ہرش وردھن 150 فوجیوں کے ساتھ راحت اور بچاو کی کارروائیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ لیکن ’ان کا یونٹ بھی شدید بارشوں سے متاثر ہوا ہے اور ان کے 9 جوان اب بھی کیمپ سے لاپتہ ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’کیمپ میں پانی داخل ہونے کے بعد کل 11 فوجی لاپتہ ہو گئے تھے تاہم بعد میں دو فوجی محفوظ پائے گئے۔ باقی نو فوجی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ان کی تلاش جاری ہے۔‘

خراب موسم کی وجہ سے امدادی کام سست روی کا شکار ہیں

آفت زدہ دھرالی گاوں سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک فوجی کیمپ قائم ہے۔ اس کے پیش نظر فوج کے ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک انفارمیشن (اے ڈی جی، پی آئی) نے ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے حادثے کی معلومات شیئر کی ہیں۔بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر مندیپ ڈھلوں نے بتایا کہ ہرشل پوسٹ پر تعینات فوج کے دستے نے سب سے پہلے موقع پر جوابی کارروائی کی اور صرف 10 منٹ میں دھرالی گاوں پہنچ گئے۔

انھوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن ابھی بھی جاری ہے اور اب تک تقریباً 20 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔بریگیڈیئر ڈھلوں کے مطابق لینڈ سلائیڈنگ اور بادل پھٹنے کے اس واقعے میں آرمی کیمپ کا ایک حصہ اور ریسکیو ٹیم بھی متاثر ہوئی ہے۔کرنل ہرش وردھن کے مطابق ’امدادی کارروائیوں میں تیزی لانے کے لیے فوج کے اضافی دستے، فوج کے ٹریکر کتے، ڈرون اور ملبہ ہٹانے کا سامان وغیرہ بھیج دیا گیا ہے۔ ضروری سامان، ادویات لے جانے اور پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوج اور فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بارش کے پانی کی سطح کو دیکھتے ہوئے مقامی باشندوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔‘

ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو ٹیگ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’ ریاستی حکومت کی نگرانی میں راحت اور بچاو ٹیمیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ عوام کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔‘حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے بھی جانی مالی نقصان پر پر گہرے دکھ کا اظہار اور کانگریس کے اراکین سے ہر ممکن امداد کی اپیل کی ہے۔

وزیراعظم نے دھامی سے دھرالی آفت اور راحت اور بچاو کاموں کی معلومات حاصل کیں

وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کی صبح اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر سنگھ دھامی سے فون پر بات کی اور اتراکھنڈ کے دھرالی علاقے میں منگل کے روز پیش آئی قدرتی آفت کی تازہ ترین صورتحال اور راحت اور بچاو¿ کاموں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔بات چیت کے دوران مسٹر دھامی نے مسٹر مودی کو بتایا کہ ریاستی حکومت پوری تیاری کے ساتھ راحت اور بچاو کے کاموں میں مصروف ہے۔ مسلسل تیز بارش کے باعث بعض علاقوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن سبھی متعلقہ ایجنسیاں متاثرہ افراد کو فوری مددفراہم کرنے کےلئے تال میل کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
بارش کے زمانے میں عام طور پر بادل پھٹنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور اس طرح کے مناظر نظر آتے ہیںوزیر اعظم نے مسٹر دھامی کو مرکزی حکومت کی طرف سے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ بات چیت کے بعد وزیر اعلیٰ دھرالی بازار، ہرشل اور آس پاس کے علاقوں میں آفت سے ہوئے نقصان کا جائزہ لینے کے لیے سہستردھارا ہیلی پیڈ سے نکلے۔

واضح رہے کہ اترکاشی میں اس آفت نے دھرالی اور ہرشل دونوں علاقوں میں کافی نقصان پہنچایاہے۔ ہرشل کے تیلگاڈ میں بھی بادل پھٹنے سے فوجی کیمپ کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ فوج کی چوکیاں اور کچھ بنکر ملبے تلے دب گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک فوجیوں کے ہلاک ہونے کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ آفیسر شاردل گوسین کے مطابق دھرالی میں تقریباً 25 سے 30 لوگ لاپتہ ہیں اور تقریباً 20 سے 25 ہوٹلوں اور دکانوں کو نقصان پہنچا ہے۔

سیب کی باغبانی کے لیے مشہور اس علاقے میں باغبانی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کئی مقامات پر جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹ گئی یابہہ گئی ہیں۔ اس لیے امدادی ٹیموں کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گنگوتری تک بجلی کی لائنیں ٹوٹنے سے بجلی کی سپلائی مکمل طور پر بند ہوگئی ہے۔ انتظامیہ نقصان کا اندازہ لگا کر راحت اور بچاو کاموں میں مصروف ہے۔

عینی شاہد نے کیا بتایا؟

دھرالی گاوں کی رہائشی آستھا پوار نے بی بی سی کے نامہ نگار وکاس ترویدی کے ساتھ بات چیت میں اس ہولناک واقعے کو بیان کیا۔آستھا نے کہا: ’میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہت سے ہوٹل بہتے دیکھے، ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ایک ساتھ بہہ گئے۔ جو پہلی لہر آئی وہ بہت شدید اور خوفناک تھی، آپ نے وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی، اس کے بعد بھی ہر 10-15 یا 20 منٹ بعد ملبے کی چھوٹی چھوٹی مزید لہریں آ رہی ہیں اور وہ بھی ہوٹلوں کو بہا کر لے جا رہی ہیں۔ ایک ایک دو دو ہوٹل بہتے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘

آستھا کہتی ہیں: ’ہمیں کوئی وارننگ نہیں دی گئی۔ سکول کی چھٹیاں بھی نہیں تھیں۔ کسی کو کوئی اطلاع نہیں تھی کہ اتنا بڑا حادثہ ہونے والا ہے۔ یہ واقعہ دوپہر کو پیش آیا۔ ہم چھت پر گئے، وہاں سے سب کچھ صاف نظر آرہا تھا۔ جیسے کچھ بچا ہی نہ ہو۔‘وہ بتاتی ہیں کہ گاوں کے زیادہ تر لوگ مقامی پوجا میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے تھے۔ آستھا نے بتایا: ’4 اگست کی رات اور 5 اگست کی صبح بھی پوجا تھی۔ شکر ہے کہ یہ
واقعہ 4 اگست کی رات کو نہیں ہوا، جب پورا گاوں پوجا میں شریک تھا۔‘
اترکاشی میں آنے والی تباہی میں درجنوں مکانات اور ہوٹل بہہ گئے ہیں

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی وارننگ ہوتی تو ہم پوجا میں نہ جاتے۔ کہیں اور الرٹ جاری ہوا ہو تو ہوا ہو، یہاں تک نہیں پہنچا۔ یہاں سب کچھ نارمل تھا۔ سکول کھلے تھے، چھٹی نہیں تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہونے والا ہے۔‘دھرالی چین کی سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ جگہ ہرشل وادی کے قریب ہے۔ کلپ کیدار یہاں کا مقامی مندر ہے، جہاں عقیدت مند زیارت کو آتے ہیں۔چاردھام یاترا (چار بڑے مندروں کی زیارت) کا راستہ بھی دھرالی سے گزرتا ہے۔ ایسے میں عقیدت مند اکثر دھرالی کے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔

آستھا اسی جگہ رہتی ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں بڑے بڑے ہوٹل تھے، تین چار منزلہ ہوٹل۔ اب تو ان کی چھتیں بھی نظر نہیں آتیں۔ نقصان اتنا شدید ہے کہ پوری مارکیٹ تباہ ہو گئی ہے۔ دھرالی کا ایک بہت بڑا بازار تھا۔ ایک بہت بڑا مندر تھا۔ اب وہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ کلپا کیدار مندر بھی نظر نہیں آتا۔‘

وادی ہرشل کے باگوری گاوں میں رہنے والے کرن نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ اب وادی کے آس پاس کے علاقوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ لوگوں کو قریبی اونچے علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے، تاکہ رات کو بارش ہونے کی صورت میں جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

بادل پھٹنے اور زمین کھسکنے کے واقعات ہمالیائی ریاستوں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔ماحولیاتی کارکنان غیر منظم تعمیرات، جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی کو ان آفات کی شدت بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

گذشتہ ماہ ہماچل پردیش کے ماحولیاتی طور پر نازک علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے خبردار کیا تھا کہ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو ’وہ دن دور نہیں جب پورا ہماچل پردیش ملک کے نقشے سے غائب ہو جائے گا۔‘

بادل پھٹنا کیا ہے؟

محکمہ موسمیات کی تعریف کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے (ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ’بادل کا پھٹنا‘ کہا جاتا ہے۔بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔

ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ سنہ 2013 میں اتراکھنڈ میں ہوا تھا، لیکن شدید بارش کے ہر واقعے کو بادل پھٹنا نہیں کہا جاتا۔یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر کی تیز بارش سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قریب ہی کوئی دریا یا جھیل ہو اور وہ اچانک زیادہ پانی سے بھر جائے تو قریبی رہائشی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک 40 سے زیادہ افراد کو بچایا جا سکا ہےکیا بادل پھٹنا صرف مون سون میں ہوتا ہے؟

اس طرح کے واقعات مون سون کے دوران اور اس سے کچھ وقت پہلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ انڈیا کے شمالی علاقوں میں مئی سے جولائی اور اگست کے درمیان نظر آتا ہے۔

کیا بادل پھٹنے کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے؟

بادل پھٹنے کا واقعہ ایک سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے پیمانے پر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ محکمہ موسمیات ریڈار کی مدد سے کسی بڑے علاقے میں بہت زیادہ بارشوں کی پیشین گوئی کر سکتا ہے، تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ بادل کس علاقے میں ہو گا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق ایسی موسمی تبدیلیوں کی پیش گوئی یا نگرانی کے لیے بادل پھٹنے کے خطرے والے علاقوں میں ایک گھنے ریڈار نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے یا بہت اعلی ریزولیوشن کے موسم کی پیشن گوئی کے ماڈلز کی ضرورت ہے جو اس طرح کے چھوٹے پیمانے پر ہونے والے واقعات کو پکڑ سکیں۔

اگرچہ بادل پھٹنے کا امکان میدانی علاقوں میں بھی ہوسکتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی پہاڑی ڈھلوانیں بادلوں کے اوپر اٹھنے اور تیز بارش کا باعث بننے کے لیے
سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔

نوٹ: یہ رپورٹ بی بی سی اردو کے بشکریہ مختلف میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے

Popular Categories

spot_imgspot_img