سری نگر : جموں و کشمیر کے سیاسی منظرنامے میں آج ایک اہم پیش رفت اس وقت درج ہوئی جب راجیہ سبھا کے لئے حال ہی میں منتخب ہونے والے تین اراکین نے نئی دہلی میں حلف وفاداری اٹھایا۔ نائب صدر جمہوریہ و چیئرمین راجیہ سبھا سی پی رادھا کرشنن نے تینوں اراکین کو ایوانِ بالا کا رکن بننے کا باضابطہ اختیار دیا۔ اس تقریب کے ساتھ ہی تقریباً چار برس بعد جموں و کشمیر کی نمائندگی راجیہ سبھا میں بحال ہوگئی، جو مرکز کے زیر انتظام خطے کے لئے پارلیمانی سطح پر ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
تقریب میں سب سے پہلے نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما سجاد احمد کچلو نے حلف لیا، جنہوں نے اپنی مادری زبان اردو میں حلف لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ قدم ریاستی تہذیب، لسانی ورثے اور کشمیریوں کے جذبات کی عکاسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کچلو نے حلف لینے کے بعد میڈیا سے کہا کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کی آواز کو ایوانِ بالا میں مضبوطی سے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور ترقی، امن و استحکام کے لئے اپنی خدمات انجام دیں گے۔
سجاد کچلو کے بعد گروندر سنگھ اوبرائے المعروف شمّی اوبرائے نے حلف لیا، جنہوں نے اپنی مادری زبان پنجابی کا انتخاب کیا۔ ایک سکھ شخصیت کے طور پر اوبرائے کا پنجابی میں حلف لینا ریاست میں لسانی و ثقافتی تنوع کی خوبصورت جھلک پیش کرتا ہے۔
تیسرے رکن چودھری محمد رمضان تھے، جنہوں نے اوبرائے کے بعد ایوان بالا کا حلف اٹھایا۔ رمضان کا شمار جموں و کشمیر کی نمایاں سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے اور وہ کئی دہائیوں پر مشتمل سیاسی و عوامی خدمات کا تجربہ رکھتے ہیں۔چودھری رمضان نے اپنی مادری زبان یعنی کشمیری کا انتخاب کیا۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر سے ایک اور رکنِ راجیہ سبھا ست شرما نے چند روز قبل ہی نائب صدر کے روبرو حلف اٹھایا تھا۔ یوں اب مرکزی خطے کے چار اراکین مکمل طور پر ایوان کا حصہ بن چکے ہیں۔
جموں و کشمیر کی راجیہ سبھا نشستیں فروری 2021 میں خالی ہو گئی تھیں جب غلام نبی آزاد، میر محمد فیاض، شمشیر سنگھ منہاس اور نذیر احمد لاوے کی مدت مکمل ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ریاست میں اسمبلی نہ ہونے اور انتخابی عمل کے غیر فعال ہونے کے باعث یہ نشستیں خالی رہیں، جس سے مرکز کے زیر انتظام خطے کی ایوان بالا میں نمائندگی عملاً ختم ہو گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چار برس بعد یہ نمائندگی بحال ہونا ایک اہم آئینی اور جمہوری مرحلہ ہے، جو نہ صرف عوامی نمائندگی کی بحالی کی علامت ہے بلکہ سیاسی نقطۂ نظر سے بھی اسے مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق، نو منتخب راجیہ سبھا اراکین کی رکنیت کے بعد امکان ہے کہ مرکز اور جموں و کشمیر کے درمیان پارلیمانی سطح پر مکالمہ اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ اب جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت کو ایوانِ بالا میں اہم کمیٹیوں اور پارلیمانی مباحثوں میں اپنی موجودگی درج کرانے کا موقع ملے گا، جو پالیسی سازی پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔عوامی اور سیاسی حلقوں نے بھی اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے اسے ’جمہوریت کا احیاء‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ راجیہ سبھا میں نمائندگی کا ہونا خطے کے لئے ناگزیر تھا۔
راجیہ سبھا میں نمائندگی ملنے کے بعد اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ آنے والے مہینوں میں یہ اراکین کس ایجنڈے اور ترجیحات کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے عوام کی نظر اب اس بات پر ہوگی کہ یہ اراکین کس طرح خطے کی مجموعی ترقی کے لئے موثر کردار ادا کرتے ہیں اور ایوان بالا میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔




