اتوار, اکتوبر ۵, ۲۰۲۵
12 C
Srinagar

محکمہ اطلاعات اور نئی میڈیا پالیسی

محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ جموں و کشمیر (یوٹی) کا ایک ایسا واحد محکمہ ہے، جو نہ صرف عوام اور حکومت کے درمیان ایک پْل کی حیثیت سے کام کرتا ہے، بلکہ یہ محکمہ حکومت اور انتظامیہ کے تمام امور کو پرنٹ، الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہی وہ ذرائع ہیں جن کی وساطت سے عوام کو حکومت کے کام کاج اور ضروری اطلاعات سے وقتاً فوقتاً باخبر کیا جاتا ہے۔ مدیرانِ کرام اپنے اداریوں اور کالموں کے ذریعے حکومت اور سماج کو آئینہ دکھاتے رہتے ہیں۔سال2019 میں جموں و کشمیر حکومت نے ایک نئی میڈیا پالیسی وضع کی، جس میں یہاں سے شائع ہونے والے اخبارات، رسائل اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق مقرر کیا گیا۔ صحافتی اداروں کو دیے جانے والے سرکاری اشتہارات سے متعلق بھی ایک پالیسی ترتیب دی گئی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جموں و کشمیر، خصوصاً وادی سے شائع ہونے والے روزناموں، ہفتہ وار اردو و انگریزی اخبارات اور ما ہنامہ رسائل نے ملک کی سالمیت، بقا، تعمیر و ترقی، امن اور عوامی خوشحالی کے لیے مشکل حالات میں کام کیا۔ اُس وقت سرکاری افسران بھی خوف و ہراس کا شکار رہتے تھے، لیکن ان اداروں میں کام کرنے والے پیشہ ور صحافیوں نے مخالف حالات میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹ کر کام کیا اور سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ انہوں نے عوام کو صحیح اور غلط میں فرق سکھانے کی بھرپور کوشش کی اور اس دوران کئی صحافیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، جسے ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
ان چھوٹے بڑے اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں اور دیگر وابستہ افراد کو یہیں سے روزگار فراہم ہو رہا ہے،جن کی تعداد درجنوں یا سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہیں۔اگر یوں کہے کی اخباری نویسی ایک صنعت بھی ہے ،تو کچھ غلط نہیں ہوگا ، اس لحاظ سے اس صنعت کو فروغ دینا اور مالی طور پر مضبوط کرنا حکومت اور انتظامیہ کی اخلاقی و قانونی ذمہ داری بنتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اشتہارات کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں کو دیگر سہولیات بھی فراہم کرے، جیسا کہ ملک کے دیگر حصوں میں ہوتا ہے۔بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں اس شعبے میں ایسے افراد بھی داخل ہو گئے ہیں، جو صحافت کے بنیادی اصولوں سے بھی ناآشنا ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اس مقدس پیشے کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں بلکہ پیشہ ور صحافت کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ آج سرکاری حلقوں کے ساتھ ساتھ سماج میں بھی اس مقدس پیشے کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ عوام اور سرکاری افسران سبھی افراد کو ایک ہی پیمانے سے ناپتے ہیں۔
اگرچہ نئی میڈیا پالیسی پر عمل درآمد میں جان بوجھ کر روڑے اٹکائے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے پیشہ ور صحافی مشکلات کا شکار ہیں اور وہ بہتر انداز میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام نہیں دے پا رہے، تاہم گزشتہ چند مہینوں سے جس انداز میں اس پالیسی پر عمل درآمد کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اخبارات و رسائل سے وابستہ افراد کو خود کو اپ ڈیٹ رکھنے کا سبق دیا جا رہا ہے، اس پر محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے افسران اور ذمہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔جہاں تک اس محکمے کے سربراہ کا تعلق ہے، عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود انہوں نے اُن افراد کی لگام کھینچ لی ہے جو ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتے تھے اور جو صحافتی ادارے مضبوط ادارہ سازی کی طرف گامزن تھے، ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی تھی۔اگرچہ باضابطہ طور پر ابھی تک نئی میڈیا پالیسی نافذ نہیں ہوئی ہے، تاہم بیشتر اداروں کے مالکان نے بہتر ادارہ سازی کی جانب پیش رفت شروع کر دی ہے۔یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ انگریزی اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ اردو اخبارات کو بھی ہر ممکن مدد فراہم کی جانی چاہیے تاکہ یہ زبان زندہ رہ سکے، کیونکہ یہی زبان یہاں کے عام لوگ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں اور اس پر بھروسا بھی کرتے ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img